او دیس سے آنے والے بتا!، تشریح ، سوالات جوابات

0
  • سبق نمبر18:حصہ نظم
  • شاعر کا نام:اختر شیرانی
  • نظم کانام:او دیس سے آنے والے بتا!

نظم او دیس سے آنے والے بتا کی تشریح:

او دیس سے آنے والا ہے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یاران وطن
آوارۂ غربت کو بھی سنا
کس رنگ میں ہے کنعان وطن
وہ باغ وطن فردوس وطن
وہ سرو وطن ریحان وطن
او دیس سے آنے والے بتا

اختر شیرانی کی یہ نظم پردیس میں رہنے والے لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔کس طرح سے پردیس میں رہنے والوں کو اپنے وطن کی ایک ایک شے یاد آتی ہے۔نظم کے اس بند میں شاعر پردیس میں اپنے وطن سے آنے والے شخص کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے دیس سے آنے والے بتا کہ میرے وطن کے ساتھی کس حال میں ہیں۔شاعر پردیس میں آنے والے سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ کنعان وطن کا کیا حال ہے۔کیا وہاں کے باغوں کی ہریالی اب بھی قائم و دائم ہے۔اب بھی وہ جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔کیا وطن کی ہوائیں اب بھی وہی سرور بھرے نغمیں سناتی ہیں۔اے وطن سے آنے والے ساتھی مجھے بتا۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعر وطن سے پردیس آنے والے ساتھی کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے دوست بتاؤ کہ کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں مستی بھری ہوائیں لہراتی ہیں۔کیا اب بھی میرے وطن کے پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر کالی گھٹائیں چھاتی اور برکھا کی رتیں اپنی بہاریں دکھاتی ہیں۔ کیا اب بھی وہ دل کو یوں ہی بہلاتی ہیں۔کیا اب بھی یہ سب مل کر دیکھنے والے کے دل کو سرشار کر دیتے ہیں۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے
باغوں کی گھنیری شاخوں میں
جس طرح سویرا ہوتا ہے
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دیس سے آنے والے ساتھی یہ بتاؤ کہ کیا اب بھی میرے وطن کی گلیوں میں شام پڑے وہی دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے۔میرے وطن کی سڑکوں پر دھندلی شمعوں میں سایے لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔کیا وہاں کے باغوں کی گھنیری شاخوں پر ان سایوں کا بسیرا دکھائی دیتا ہے۔ اے میرے دیس سے آنے والے دوست مجھے بتاؤ۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی مہکتے مندر سے
ناقوس کی آواز آتی ہے
کیا اب بھی مقدس مسجد پر
مستانہ اذاں تھراتی ہے
اور شام کے رنگیں سایوں پر
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میرے وطن کے سے آنے والے دوست بتاؤ کہ کیا اب بھی میرے وطن کے مندر یوں ہی ناقوس اور عبادت کی صداؤں سے گونجتے ہیں۔کیا یہاں کی مسجدوں میں اب بھی آذانوں کی مقدس آواز کی گونج سنائی دیتی ہے۔کیا اب بھی جب خام ڈھلے میرے وطن پر شام چھاتی ہے تو اس شام کے رنگین سایوں میں میرے وطن کی عظمت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں
شاخوں کے حریری پردوں میں
نغموں کے خزانے گھولتے ہیں
ساون کے رسیلے گیتوں سے
تالاب میں امرس گھولتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعراپنے وطن سے پردیس میں آئے ساتھی سے پوچھتا ہے کہ کیا میرے وطن کے آم کے باغات اور اونچے پیڑوں پر اب بھی پہیے بولتے ہیں۔ کیا ان کے بولنے کی آوازیں اب بھی سننے والوں کے کانوں میں رسیلے نغمے کھولتی ہیں۔یہ رسیلے نغمے اور ان پہیوں کی آواز ساون میں گھل کر ایک میٹھا رس گھولتے تھے۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فضا
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثال خواب فضا
وہ کھیل وہ ہم سن وہ میداں
وہ خواب گہہ مہتاب فضا
او دیس سے آنے والے بتا

شاعر پردیس میں آنے والے شخص کو مخاطب کر کے پوچھتا ہے کہ کیا اب بھی میرے وطن کے مدرسے کی آب و ہوا ویسی ہی شاداب تھی جیسے کہ میرے وہاں ہوتے ہوا کرتی تھی۔وہ کھیل جو بچپن میں ہم کھیلا کرتے تھے کیا اب بھی ایسے ہی کھیلے جاتے ہیں۔کھیل کے میدان کے میرے ساتھی کتنے بدل چکے ہیں۔وہاں کی فضا اب بھی خواب گیں ہے کہ نہیں۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے
اب یاروں میں کوئی آہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے میرے ہم وطن مجھے بتا کہ میرے دیس کے باسیوں کے سینے میں ہماری محبت باقی ہے کہ نہیں۔کیا اس وطن میں اب مجھے کوئی یاد کرتا ہے کہ سب بھلائے بیٹھے ہیں۔ کیا میرے دوستوں، ساتھیوں کو میری یاد آتی ہے۔میرے دیس سے آنے والے ساتھی مجھے کچھ تو بتا۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی
مستانہ فضائیں بھول گئیں
برکھا کی بہاریں بھول گئیں
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں
دریا کے کنارے بھول گئے
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
او دیس سے آنے والے بتا

شاعر اس بند میں کہتا ہے کہ میرے ہم وطن ساتھی مجھے بتا کہ کیا میرے وطن کے باغوں کی مستی بھری فضائیں،وہاں کی برکھا کی بہاریں،ساون کی گھٹائیں،دریا کے کنارے اور جنگل کی ہوائیں مجھے یاد رکھے ہوئے ہیں یا بھول چکے ہیں۔ مجھے تو میرے وطن کی ایک ایک بات اور ایک ایک احساس یاد ہے کیا وہ بھی مجھے یاد رکھے ہوئے ہیں یا بھلا چکے ہیں۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں
معصوم گھروں سے بھور بھئے
چکی کی صدائیں آتی ہیں
اور یاد میں اپنے میکے کی
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعرہم وطن ساتھی سے پوچھتا ہے کہ کیا اب بھی میرے وطن کے گاؤں میں ساون میں برکھا کی بہار چھاتی ہے۔ کیا ساون میں گھروں سے چکی کی صدائیں گونجتی ہیں۔کیا اب بھی میرے وطن کی عورتیں چکی پیستے ہوئے اپنے میکے اور بچھڑی سہیلیوں کے فراق کے گیت گاتی ہیں۔

او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر
تاریخ کی عبرت طاری ہے
ان پورنا کے اجڑے مندر پر
مایوسی و حسرت طاری ہے
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے
ویرانی و رقت طاری ہے
او دیس سے آنے والے بتا

اس بند میں شاعر پوچھتا ہے کہ کیا میرے وطن کے پرانے کھنڈر اب بھی نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔کیا پورنا کے مندروں اور سنسان گھروں پر اب بھی ویرانی اور رقت کا راج ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:نظم کے پہلے بند میں “آوارہ غربت” اور “کنعان وطن” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

نظم کے پہلے بند میں “آوارہ غربت” سے شاعر کی مراد مسافر کی ہے کہ جو اپنی غربت سے تنگ آئے پردیس کا رخ کیے ہوئے ہیں۔غربت کو مٹانے کے لیے اس کی یہ آوارگی ہی اسے مسافر بناتی ہے۔ جبکہ “کنعان وطن” سے شاعر کی مراد وہ جگہ ہے جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

سوال نمبر02:پردیس میں وطن سے آنے والے شخص سے شاعر بے تاب ہو کر کیا کیا پوچھتا ہے؟

شاعر پردیس میں وطن سے آنے والے شخص سے وہاں کے موسموں،پربتوں،فضاؤں،باسیوں،مدرسے باغات غرض کہ اپنے وطن کی ہر چیز اور وہاں کے لوگوں کا احوال پوچھتا ہے۔

سوال نمبر03:’او دیس سے آنے والے بتا للّہ بتا للّہ بتا’ سے شاعر کے کس احساس کا اظہار ہو رہا ہے؟

اس مصرعے سے وطن کی یاد کے لیے شاعر کی شدید تڑپ اور بے بسی کے احساس کا اظہار ہوتا ہے۔اس مصرعے میں شاعر کی وطن کے جھلکتی محبت کے احساس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر04:شاخوں کے حریری پردوں میں نغموں کے خزانے کون کھولتا ہے؟

شاخوں کے حریری پردوں میں آم کے اونچے پیڑوں پر بولنے والے پہیوں کی آوازیں حریری نغمے گھولتی ہیں۔

عملی کام:

نظم میں شامل تلمیحات اور استعارات کی نشاندہی کیجیے۔

تلمیحات:- کنعان وطن،ناقوس، ان پورنا۔

اپنے وطن کی خوبیوں پر ایک مضمون لکھیے۔

میرے وطن بھارت یا جمہوریہ ہندوستان یا بھارت گن راجیہ جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ اس ملک نے پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع دیا۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب 35 کروڑ سے زائد باشندے ایک سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔

بھار ت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار ہیں، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا ،مالدیپ کے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور اندامان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سے سمندری حدود سے جڑے ہیں۔میرے وطن بھارت کے کچھ مغربی علاقے زمانہ قدیم میں وادی سندھ کے مراکز میں شامل تھے جو تجارت اورنفع بخش سلطنت کے لیے قدیم زمانے سے ہی دنیا میں مشہور تھی۔

چار مشہور مذاہب جن میں ہندومت ،بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے اسی ملک میں جنم لیا جبکہ، جودھامت، مسیحیت اور اسلام اپنے ابتدائی دور میں ہی یہاں پہنچ گئی تھی جس نے اسے علاقے کی تہذیب و ثقافت پر انمٹ نقوش مرتب کیے۔ اس علاقے پر آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط 18 ویں صدی میں شروع ہوئی جبکہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد یہاں برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہوئی۔

بھارت کی معیشت عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے ساتویں بڑی اور قوت خرید (پی پی پی) کے لحاظ سے تیسری بڑی معیشت ہے۔1991ء کے معاشی اصلاحات نے اسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی معیشتوں میں لا کھڑا کیا ہے اور یہ تقریباً صنعتی ملک کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ملک خطے کا ایک طاقتور ملک ہے اس کی فوج بلحاظ تعداد دنیا کی تیسری بڑی قوت ہے اور دفاعی خرچ کے لحاظ سے یہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ بھارت ایک وفاقی جمہوریہ ہے جو پارلیمانی نظام کے تحت 29 ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھارت ایک کثیر لسانی ،مذہبی ،ثقافتی اور نسلی معاشرہ ہے۔ نیز یہ ملک کئی انواع واقسام کی جنگلی حیات سے بھی مالا مال ہے۔