سوانح عمری سر سید کا بچپن کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سوانح عمری سر سید کا بچپن کا خلاصہ:

سرسید کا بچپن، حالی کی سوانح عمری ”حیات جاوید“ سے اخذ کردہ ہے۔ سرسید جیسے بڑے ہیرو کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ قاری کو ان کی بچپن کی زندگی اور حالات و واقعات سے روشناس کرواتے ہیں کہ ان میں کون سی خوبیاں بچپن سے ہی موجود تھیں اور کون سی بعد کی ریاضت کا نتیجہ ہیں۔

سر سید کی پیدائش سے قبل ان کی بہن اور بھائی موجود تھے۔سرسید کو دو ماؤں کا دودھ پینا نصیب ہوا۔ اول ان کی ممانی اور دوسرا ان کی اپنی والدہ۔سرسید اپنے خاندان کے دیگر بچوں سے زیادہ تندرست و توانا پیدا ہوئے تھے۔ان کے بچپن میں جسمانی صحت یا ان کی فزیکل قابلیت کے سوا کوئی خصوصیت نہ تھی۔ان کی باقی ترقی ان کی بعد کی محنت اور فکری ریاضت کا نتیجہ ہے۔

ماں بی بی سرسید کے گھر کی ایک قدیم خادمہ تھی۔جنھوں نے سرسید کو پالا تھا۔سرسید بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔سرسید کی عمر پانچ برس تھی جب ماں بی بی کا انتقال ہوا۔ سرسید کو اپنے بچپن کے واقعات سے یہ یاد ہے کہ ماں بی بی ان کو فالسے کا شربت پلا رہی تھیں لیکن پھر کچھ دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا۔

سرسید ان کی وفات پر بہت رنجیدہ تھے۔ایک طویل عرصے تک ہر جمعرات ان کی فاتحہ خوانی کروائی جاتی تھی۔کھانا کسی متحاج کو دیا جاتا تھا۔وہ مرتے وقت اپنا تمام زیور سرسید کے نام پر چھوڑ گئی تھیں۔مگر سرسید کی والدہ نے سرسید کی اجازت سے وہ زیور خیرات میں دے دیا۔

بچپن سے سرسید پر کھیل کود کی کوئی پابندی نہ تھی۔ان کے رشتے داروں کے کافی بچے تھے جن کے ساتھ وہ مل کر کھیلا کرتے تھے۔سرسید نے بچپن میں گیند بلا،گیڑیاں،کبڈی،آنکھ مچولی، چیل چلو غیرہ جیسے تمام کھیل کھیلے۔ ان کے بزرگوں نے ان سے کہا تھا کہ جو بھی کھیل کھیلو سب کے سامنے کھیلو، چھپ کر کھیل کھیلنے کی انھیں اجازت نہ تھی۔

سرسید کو بچپن میں باہر پھرنے،گھر سے باہر جانے عام صحبتوں میں بیٹھنے وغیرہ کا کبھی اتفاق نہ ہوا۔ یہاں تک کہ والدہ کی حویلی سے ان کے والد کی حویلی تک جانے کے لیے بھی ان کے ساتھ آدمی جایا کرتا تھا۔سرسید کے نانا کے ہاں ایک چوڑا چکلا دستر خوان بچھا کرتا تھا۔ بیٹیاں،پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ جو بچہ جس چیز کو کھانے کی خواہش بتاتا وہی اسے اس کی رکابی میں دی جاتی تھی۔ تمام بچے ادب اور صفائی کے ساتھ کھانا کھاتے۔سب کو خیال ہوتا کے کوئی چیز نیچے نہ گرے۔ ہاتھ میں زیادہ کھانا نہ بھرے یا کھاتے وقت منھ سے آواز نہ نکلے۔شام کو چراغ جلنے کے بعد وہ نانا کے گھر مکتب میں جاتے جہاں سبق آ جانے کے بعد بچوں کومٹھائی ملتی تھی۔

سرسید نے اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ تیراکی بھی سیکھی۔تیراکی کے علاوہ اس زمانے میں تیراندازی کا بھی بہت چرچا ہوا کرتا تھا۔ یوں اس زمانے میں انھوں نے نہ صرف تیراندازی سیکھی بلکہ اس میں خاصی مہارت بھی حاصل کی۔ دلی سے سات کوس پر جاٹوں کا ایک گاؤں تھا۔سرسید کو گاؤں میں جا کر رہنا پسند تھا کہ وہاں جنگل میں پھرنا،عمدہ دودھ دہی، تازہ گھی اور جاٹیوں کے ہاتھ کی پکی باجرے یا مکئی کی روٹیاں انھیں بہت اچھی لگتی تھیں۔

اپنے بچپن میں اکبر شاہ کے زمانہ میں انھوں نے بادشاہ سے اپنے والد کے ہمراہ انعام بھی پایا تھا۔اپنی بسم اللہ کی تقریب بھی انھیں بخوبی یاد تھی۔اول وہ کچھ بول نہ پا رہے تھے۔اس تقریب میں شاہ صاحب ان کے والد کی خصوصی درخواست پر آئے تھے۔سرسید نے جب قرآن پڑھا تو زنانہ مجلس میں ان کی استانی نے جس طرح نذر کی اس کی مثال آج تک نہیں ملتی۔انھوں نے اپنی کم عمری میں ہی قرآن مجید،کریما،خالق باری،آمد نامہ، گلستان، بوستان، ریاضی،اقلیدس جیسے مضمون اور کتابیں پڑھیں۔انھیں اہل علم،اہل فارسی اور صبہائی،غالب جیسے لوگوں کی علمی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:سرسید نے اپنا بچپن کیسے گزارا؟

سرسید کو بچپن میں باہر پھرنے،گھر سے باہر جانے عام صحبتوں میں بیٹھنے وغیرہ کا کبھی اتفاق نہ ہوا۔ کھیل کود کی ان پر کوئی پابندی نہ تھی۔ان کے بچپن میں جسمانی صحت یا ان کی فزیکل قابلیت کے سوا کوئی خصوصیت نہ تھی۔

سوال نمبر02:سرسید کے نانا کے یہاں دسترخوان کے آداب کیا تھے؟

سرسید کے نانا کے ہاں ایک چوڑا چکلا دستر خوان بچھا کرتا تھا۔ بیٹیاں،پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ جو بچہ جس چیز کو کھانے کی خواہش بتاتا وہی اسے اس کی رکابی میں دی جاتی تھی۔ تمام بچے ادب اور صفائی کے ساتھ کھانا کھاتے۔سب کو خیال ہوتا کے کوئی چیز نیچے نہ گرے۔ ہاتھ میں زیادہ کھانا نہ بھرے یا کھاتے وقت منھ سے آواز نہ نکلے۔

سوال نمبر03:سرسید نے بچپن میں کون کون سے کھیل کھیلے؟

سرسید نے بچپن میں گیند بلا،گیڑیاں،کبڈی،آنکھ مچولی، چیل چلووغیرہ جیسے تمام کھیل کھیلے ان کے بزرگوں نے ان سے کہا تھا کہ جو بھی کھیل کھیلو سب کے سامنے کھیلوچھپ کر کھیل کھیلنے کی انھیں اجازت نہ تھی۔

سوال نمبر04:سرسید کو گاؤں میں جا کررہنا کیوں پسند تھا؟

سرسید کو گاؤں میں جا کر رہنا اس لیے پسند تھا کہ وہاں جنگل میں پھرنا،عمدہ دودھ دہی، تازہ گھی اور جاٹیوں کے ہاتھ کی پکی باجرے یا مکئی کی روٹیاں انھیں بہت پسند تھیں۔

عملی کام:

ماں بی بی اور سرسید کے تعلق کو اپنے الفاظ میں بیان کیجئے۔

ماں بی بی سرسید کے گھر کی ایک قدیم خادمہ تھی۔جنھوں نے سرسید کو پالا تھا۔سرسید بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔سرسید کی عمر پانچ برس تھی جب ماں بی بی کا انتقال ہوا۔ سرسید کو اپنے بچپن کے واقعات سے یہ یاد ہے کہ ماں بی بی ان کو فالسے کا شربت پلا رہی تھیں لیکن پھر کچھ دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا۔سرسید ان کی وفات پر بہت رنجیدہ تھے۔ایک طویل عرصے تک ہر جمعرات ان کی فاتحہ خوانی کروائی جاتی تھی۔کھانا کسی متحاج کو دیا جاتا تھا۔وہ مرتے وقت اپنا تمام زیور سرسید کے نام پر چھوڑ گئی تھیں۔مگر سرسید کی والدہ نے سرسید کی اجازت سے وہ زیور خیرات میں دے دیا۔

اس مضمون میں جن کتابوں کے نام آئے ہیں،انھیں اپنی کاپی میں لکھیے۔

قرآن مجید،کریما،خالق باری،آمد نامہ،گلستان،بوستان،ریاضی،اقلیدس۔