سبق عورتوں کے حقوق کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق کا خلاصہ:

اس سبق میں سرسید احمد خان نے عورتوں کے حقوق کو ایک مضمون کی صورت میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تربیت یافتہ ملکوں میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ مردوں کو عورتوں کے مساوی حقوق فراہم کیے جارہے ہیں۔جبکہ دیکھا جائے تو اسلام نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عورتوں کو تحفظ اور حقوق فراہم کیے۔اسلام میں عورتوں کو مردوں کے بالکل مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔

نا بالغی میں جس طرح مرد بے اختیار ہے اسی طرح عورت بھی بے اختیار جبکہ بالغ ہونے کے بعد دونوں کو اختیار حاصل ہے۔ عورت اپنی جائیداد کی خود مالک ہے اور اسے رکھنے یا فروخت کرنے کا حق رکھتی ہے۔ عورت کی رضا مندی نہ ہو تو اس کی زبردستی شادی نہیں کی جا سکتی ہے۔وہ مرد کی طرح سے معاہدے کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

شادی سے قبل اور بعد میں جائیداد کی ملکیت کا حق رکھتی ہے جو اس کی وراثت میں ہو یا اس کی شوہر کی جانب سے اس کے حصے میں آئے۔اس پر دعویٰ ہوسکتا ہے اور وہ دعویٰ کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ وہ جائیداد کو خریدنے،بیچنے،حبہ، وصیت وغیرہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اس کو رشتے داروں اور شوہر کی جائیداد میں وراثت پانے کا حق حاصل ہے۔

مذہبی طور پر وہ نیکیوں کے عوض مردوں کے برابر ثواب اور بدی کے عوض گناہ کی حقدار ہے۔اب ضرورت یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ احسن سلوک کرنا ہے۔مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ ان کی خاطرداری کے ساتھ ساتھ ان سے محبت کرنی چاہیے۔ان کو ہر طرح سے خوش رکھنا چاہیے۔ان کے آسائش و آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔

تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہے۔انھیں محض اپنا خدمت گار تصور کرنے کی بجائے انھیں رنج و راحت میں شریک ساتھی اور اپنے لیے باعث مسرت تسلیم کیا جاتا ہے۔درحقیت مسلمان ممالک جہاں اصولاً عورت کو یہ حقوق حاصل ہیں وہاں عورت کو یہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔مسلمانوں نے عورتوں کو ان کے مذہب کے مطابق دی گئی آزادی اور ا ختیارات دینے کی بجائے ان کے ساتھ برا سلوک کیا جس کی وجہ سے وہ دیگر قوموں کی تذہیک کس نشان بنے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم مسلمان ان باتوں پر غور کریں اور اپنے چال چلن کو درست کریں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:اسلام میں عورتوں کو کیا حقوق اور اختیارات دیے گئے ہیں؟

اسلام میں عورتوں کو مردوں کے بالکل مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔ نا بالغی میں جس طرح مرد بے اختیار ہے اسی طرح عورت بھی بے اختیار جبکہ بالغ ہونے کے بعد دونوں کو اختیار حاصل ہے۔ عورت اپنی جائیداد کی خود مالک ہے اور اسے رکھنے یا فروخت کرنے کا حق رکھتی ہے۔ عورت کی رضا مندی نہ ہو تو اس کی زبردستی شادی نہیں کی جا سکتی ہے۔وہ مرد کی طرح سے معاہدے کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے.شادی سے قبل اور بعد میں جائیداد کی ملکیت کا حق رکھتی جو اس کی وراثت میں ہو یا اس کی شوہر کی جانب سے اس کے حصے میں آئے۔اس پر دعویٰ ہوسکتا ہے اور وہ دعویٰ کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ وہ جائیداد کو خریدنے،بیچنے،حبہ، وصیت وغیرہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اس کو رشتے داروں اور شوہر کی جائیداد میں وراثت پانے کا حق حاصل ہے۔مذہبی طور پر وہ نیکیوں کے عوض مردوں کے برابر ثواب اور بدی کے عوض گناہ کی حقدار ہے۔

سوال ںمبر02:تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟

تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہے۔انھیں محض اپنا خدمت گار تصور کرنے کی بجائے انھیں رنج و راحت میں شریک ساتھی اور اپنے لیے باعث مسرت تسلیم کیا جاتا ہے۔

سوال نمبر03:مردوں کو عورتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے؟

مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ ان کی خاطرداری کے ساتھ ساتھ ان سے محبت کرنی چاہیے۔ان کو ہر طرح سے خوش رکھنا چاہیے۔ان کے آسائش و آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔

عملی کام:

ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت پر ایک مختصر مضمون لکھیے۔

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی سماجی اور اقتصادی میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہیں، جن معاشروں میں ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان میں عورتوں کو آگے بڑھنے کے پورے مواقع میسر نہیں ہیں۔

جہاں تک ہندوستان کے عام معاشرہ کا تعلق ہے تو اس میں عورتوں کی حصہ داری، دن بدن بڑھ رہی ہے۔اس سے قبل ہندوستان میں مغربی حکومت کے دوران بہت سی سماجی برائیاں موجودتھیں۔ مثلاً دخترکشی، نوعمری شادیاں، تعلیم نسواں پر پابندی، ستی پرتھاوغیرہ اوران برائیوں کا اثر اتنا تھاکہ عورت کا جینا محال تھا۔

سماجی اصلاحی پیروکار مسلسل اس کوششمیں لگے تھے کہ ان برائیوں کا سدا کے لئے خاتمہ ہومفکر اور مصلحین نے پوری کوشش کے ساتھ ان برائیوں کو دورکرنے کا بیڑا اپنے سراٹھایا اوربرائیوں کے خلاف کھل کر مخالفت کرنے لگے۔ انگریز حکمراں نے بھی دخترکشی اوررسمِ ستی جیسی برائیوں کو غیر انسانی قرار دیامگر پھر بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ راجارام موہن رائے نے چھوٹی عمر کی شادی کثیرازدواج اورستی کی رسم کی مخالفت کی اورخواتین کی تعلیم کی حمایت کی۔ اس ردعمل سے متاثر ہوکر انگریز حکمراں نے اس پر قانون لاگو کرکے اسے غیرقانونی فعل قرار دیا۔ راجا رام موہن رائے نے برہمو سماج کی بنیاد رکھی اور بعدمیں سماجی اصلاحی تحریک کی شکل اختیارکی۔ انہوں نے بیوہ کی شادی کے لئے بھی مثبت اقدام اٹھائے اور سماج میں دیگر بڑھی برائیوں اوررسومات کی پرزور مخالفت کی۔

انیسویں صدی میں سماجی تحریک کسی قدر بہترثابت ہوئی اوربہت برائیاں ختم ہوئیں خواتین کوتعلیم کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کچھ خواتین انگریزی نے بان کی طرف بھی متوجہ ہونے لگیں۔ بلند حوصلہ سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے سیاسی میدان تک اپنے پرچم لہرائے ۔ہندوستان آزاد ہونے کے بعد خواتین کے حالات میں اور زیادہ سدھار آیا اورمرد اساس نظام میں انھیں بھی مساوی حقوق دیئے گئے۔

عدم مساوات پرقدغن لگایا اورتانیثی تحریک کی کامیابی کا ثبوت یہ ہوا کے عورتوں کوبھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا دیگر قوانین بھی عورتوں کی سہولیات کے لئے بنائے گئے تاکہ سماج اورخاص کر طبقہ ٔ نسواں مختلف بورڈ، اداروں سے فیضیاب ہوسکیں۔ سیاسی اصلاح کا روں نے صورت حال کو مدنظرہوئے قوم کی چھوٹی چھوٹی برائیوں پربھی غوروفکر کرتے ہوئے۔ جہیز کی مانگ، شراب نوشی، جنسی استحصال کے خلاف بھی اقدام اٹھائے جس کے تحت عصمت دری، بچہ مزدوری، جرائم کو فروغ دینے والے دوسرے تمام افعال کے خلاف احتجاج کیا۔

تانثیت کوفروغ ملاجس سے عورتوں کی خودمختاری وجودمیں آئی اورانہوں نے کچھ حدتک اپنی ذمہ داری کی کمان اپنے ہاتھ میں لینے کا عزم کیا اوراپنے تمام مسائل پرجدوجہد شروع کی۔ ہندوستان میں تانیثیت کے رویے نے سماجی سطح پر عوامی بیداری اورخوداعتمادی کو جنم دیا۔ حالانکہ تانیثی تحریک کومردوں نے شروع کیا اس کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ اسی طرح کی تحریکات نے ہندوستان میں عورتوں کونئی پہچان دلائی اور جدوجہد کا سلسلہ جاری ہے۔

مذکورہ تحریکوں سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ اعتماد پسند اور اطمینان پسند تھا جس نے خواتین کی محرومی اوران پر ہونے والے ظلم کو دورکرتے ہوئے خواتین کے کردار کو اجاگر کیا اور ملکی، غیرملکی سطح پر خواتین کو ایک نئی روشنی میں لاکرکھڑا کیا جہاں پروہ خودکو محفوظ اور پراعتماد محسوس کرے۔

مختلف شعبوں میں شہرت حاصل کرنے والی پانچ ہندوستانی عورتوں کے نام لکھیے۔

کورنیلیا سورابجی:-آپ ہندوستان کی پہلی خاتون وکیل تھیں۔ انھوں نے پردے کے رواج اور مردوں کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی بہت سی خواتین کو انصاف دلانے میں مدد فراہم کی اور وہ یہ کام کسی سرکاری مدد کے بغیر کر رہی تھیں۔ انھوں نے تنہا یہ لڑائی لڑی اور ان سب کے لیے کئی بار تو انھوں نے اپنی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
آنندی گوپال جوشی:- آپ بھارت کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں جنھوں نے امریکا سے ڈاکٹرکی ڈگری پانے کا اعزاز حاصل ہے۔
اندرا گاندھی:- اندرا گاندھی کو بھارت کی پہلی اور اکلوتی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جسٹس آنا چندے:- آپ کو بھارت کی پہلی خاتون جج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
آصمہ چترجی:- آپ کو بھارت کی پہلی خاتون سائنسدان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جنھوں نے آرگینک کیمسٹری اور میڈیکل پلانٹ پر ریسرچ کی۔