بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے تشریح

0

اشعار کی تشریح:

بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے

یہ شعر مرزا رفیع سودا کی غزل کے مطلع کا شعر ہے جس میں شاعر کہتا ہے کہ بہار کا موسم محبوب کے بغیر ایسے ہی گزر رہا ہے کہ جیسے انسان بغیر کسی ڈھال کے موجود ہو اور کوئی تیر اس کی چھاتی کے آر پار ہوجائے۔اس شعر میں شاعر نے موسم بہار میں چلنے والی صبح کی ہوا کو تیر سے مشابہ قرار دیا ہے جبکہ خود کو اس موسم میں بغیر محبوب کے بنا ڈھال جیسے جنگجو کے قرار دیا ہے۔

گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو
مِرے خیال میں تُو لاکھ بار گزرے ہے

اس شعر میں شاعر محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اگرچہ لاکھ دفعہ تمھاری گلی سے میرا گزر ہو یا چاہے میں وہاں سے نہ بھی گزروں لیکن میرے دل و دماغ پر محض تمھارا ہی غلبہ ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تم ہر لمحہ یہاں سے گزر رہے ہو۔

کہے ہے آج تِرے در پہ اضطرابِ نسیم
کہ اس جہاں سے کوئی خاکسار گزرے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب آج ہوا کی بے چینی یہ پتا دے رہی ہے کہ آج کچھ الگ بات ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمھارے در سے جیسے کوئی عاجز یا فقیر انسان کا گزر ہوا ہو۔وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمھارا محبوب یعنی کہ میں ہوں۔

میں وہ نہیں کہ مجھ سے مل کے ہو بدنام
نہ جانے! کیا تیری خاطر میں یار گزرے ہے

اس شعر میں شاعر کا مخاطب اس کا محبوب ہے۔وہ اپنے محبوب کو کہتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ جس سے اگر تم ملو گے تو بدنام ہو جاؤ گے۔میں ہر گز تمھیں بدنام نہ ہونے دوں گا بلکہ اگر تم کہو گے تو تمہاری خاطر تو میں اس دنیا سے بھی گزر جاؤں گا۔

گزر میرا تیرے کوچے سے یوں ہے اے ظالم
کہ جیسے ریت سے پانی کی دھار گزرے ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تیرے کوچے میں آیا اور میں اس تیزی سے گزر گیا کہ اپنی تشنگی بھی دور نہ کر پایا۔تمھاری بدنامی نہ ہو اس خوف سے میں اس کوچے سے تیزی میں گزا جیسے کہ ریت سے پانی کی ایک دھار کو گزار دیا جائے کہ وہ اسے پوری طرح بھگو بھی نہ پائے کہ سوکھ جائے۔

مجھے تو دیکھ کے جوش و خروش سوداؔ کا
اسی ہی فکر میں لیل و نہار گزرے ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے دیکھ کر سودا کے جوش وخروش میں بھی تیزی آ گئی۔ محبوب کے خیالوں اور سوچ ہی میں بہار کی رُت بیتے جا رہی ہے۔ دن اور رات اسی سوچ اور محبوب کی فکر میں تمام ہو رہے ہیں۔

یہ آدمی ہے کہ سر مارتا پھرے ہے بہ سنگ
کہ موجِ تند سر کوہسار گزرے ہے

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ یہ کیسا آدمی ہے جو پتھروں سے اپنا سر ٹکراتا پھر رہا ہے۔اس کا پتھروں سے سر ٹکرانا ایسا ہی ہے کہ جیسے ندی کی تیز دھار موجیں ہوا کی تیزی سے پہاڑوں سے ٹکرا کر گزر رہی ہوں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:”نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ صبح کی تازہ ہوا یعنی باد نسیم یوں محسوس ہو رہی ہے گویا کہ کوئی تیر سینے کے آر پار ہو رہا ہو۔

سوال نمبر02:”میں وہ نہیں کہ کوئی مجھ سے مل کے ہو بدنام” سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟

اس مصرعے سے شاعر کی مراد ہے کہ میں محبت ضرور کرتا ہوں مگر میری محبت اور میرا حوالہ اپنے محبوب کے لیے ہر گز بدنامی اور رسوائی کا باعث نہ بنے گا اور نہ ہی میں ایسا ہونے دوں گا۔

سوال نمبر03:مقطعے کے قطع بند اشعار میں شاعر نے اپنی کس کیفیت کا اظہار کیا ہے؟

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے دیکھ کر سودا کا جوش و خروش تو بڑھ گیا لیکن میرے دن رات فکر میں بسر ہو رہے ہیں۔ اور اس کا جوش یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ یہ آدمی ہی ہے جو پتھروں سے سر ٹکرا رہا ہے یا یہ کوئی تیز و تند ہوا کا طوفان ہے جو پتھروں سے اپنا سر ٹکرا رہا ہے۔

عملی کام:

اس غزل کے اشعار میں جہاں جہاں شاعر نے اضافت کا استعمال کیا ہے نشاندہی کیجیے۔

سپر جام و یار، موج تند، سر کوہسار، جوش و خروش، لیل ونہار وغیرہ۔

اس غزل کے قافیوں کی فہرست بنائیے۔

یار،پار، خاکسار گزرے،یار گزرے،پانی کی دھار،لیل و نہار، سر کوہسار وغیرہ۔