Afsana I.C.S Summary | افسانہ آئی سی ایس کا خلاصہ

0

علی عباس حسینی کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علی عباس حسینی کا نام اردو افسانے کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو افسانے کو حقیقت کے رنگ سے آشنا کیا۔ ان کے افسانوں کا موضوع دیہات کی زندگی اور شہری مسائل ہیں۔ وہ کرداروں کی ذہنی تہوں کو آسانی سے کھولتے ہیں جس سے اس کی مکمل شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔

افسانہ آئی سی ایس کا خلاصہ

علی عباس حسینی کا افسانہ ”آی سی ایس“ مشہور افسانہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار وحید ایک غریب خاندان محمد پور کا ہے جو گاؤں کے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا، کبڈی، آنکھ مچولی کھیلا۔ بارہ سال گاؤں میں رہنے کے بعد ایک عزیز نے الہ آباد بلا لیا کیونکہ وہ اولاد سے محروم تھے اس لیے انہوں نے اعلی تعلیم دلائی۔ اس کے بعد وہ آئی سی ایس ہوگیا۔ وحید جس نے سات برس کی عمر سے گائے بھینس خود ہی دوہی اور گوبر خود ہاتھ سے اٹھایا اگر اس کے اندر اچھا انسان بننے کی صلاحیت نہ ہوتی تو آج کیوں اپنی ذہانت کے لیے مشہور ہوتا۔ گویا اس کی شخصیت ہی بدل گئی۔

اس نے محمد پور کے پھٹے پرانے کپڑے اتارنے کے بعد الہ آباد کا عمدہ لباس پہن لیا۔ اس کے اندر معاملہ فہمی، خودداری، وقار، متانت، سنجیدگی خوش مزاجی آگئی۔ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہی پیدا ہوگیا۔ یہ اس کی فطری صلاحیت تھی، اسکول میں داخل ہوتے ہی اچھے نمبروں سے اسکول پاس کیا اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے لندن گیا جہاں دو سال رہا۔ اس دوران اس کی ملاقات شہاب الدین خاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم سے ہوئی۔

لندن ہی میں جہاں آرا بیگم سے شادی کرلی۔ جب اپنی بیوی کے ساتھ ہندوستان واپس آیا مگر اپنے گاؤں محمد پور میں نہیں گیا کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ اصلیت معلوم نہ ہو جائے کہ وہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے ہندوستان پہنچتے ہی دہلی کے وائسرائے کے دفتر میں افسر ہوگیا اور گھر خط لکھ کر بھیج دیا کہ مصروفیت کی وجہ سے گھر نہیں آ سکتا اور برابر خرچ بھیجتا رہوں گا۔ کسی کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد بوڑھا باپ دل مسوس کر اور بوڑھی ماں رو دھو کر اور بھائی ناراض ہوکر خاموش رہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا گھر اس قابل نہیں کہ کوئی آئی سی ایس واپس آکر قیام کرے۔ ان کا جھوپڑا کسی بہو بیگم کو لانے کے لائق نہیں اس طرح جہاں آرا بیگم نے نہ اپنی سسرال دیکھی اور نہ ہی ساس، سسر، دیور، جیٹھ جیٹھانی وغیرہ سے ملنے کی نوبت آئی۔

وحید دہلی میں بڑے آدمیوں سے ملنے جلنے ، ملک کی پارٹیاں، سنیما ، تھیٹر کھیل، تماشے غرض وہ اس قدر مشغول ہو گیا کہ اسے اپنے رشتے داروں کا خیال ہی نہیں رہا۔ مگر ماں اپنے بچے کو کیسے بھول سکتی ہے ، بس ایک نظر دیکھنے کی خواہش تھی۔ بہو کو دیکھنے کی بڑی تمنائیں تھی۔ ماں خط لکھنے پر مجبور ہو گئی۔ بہو کو دل کی ساری کہانی لکھوا کر بھیج دی۔
اس کے بعد بہو سسرال جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ شوہر سے ناراض ہو کر سسرال جانے کی خواہش ظاہر کی۔

وحید پریشان ہوگیا اور گھر خط لکھ کر بھیجا کہ باغ کے احاطے میں بنگلا نما پھوس کا جھونپڑا بنوا دیں۔ کچھ دن بعد وحید بیوی کے ساتھ اپنے گھر کے لئے روانہ ہوا۔ بیوی کے ساتھ کئی سوٹ کیس تھے اس کو بار بار یہ خیال آتا رہا کہ خدا جانے گھر پر والدین نے بیگم کے لائق کوئی جگہ بنوائی بھی ہے یا نہیں۔ ان لوگوں کو بیگم کی بے پردگی پسند آئے یا نہیں۔ وہ جس پہلو پر دیکھتا تو دشواریاں ہی دشواریاں دکھائی دیں مگر بیگم کی یہ حالت تھی کہ ابتدائی سفر سے ایک ناول شروع کیا تو راستے بھر اس کو پڑھتی رہی پھر محمد پور اسٹیشن آگیا تو جہاں آرا بیگم نے یہاں کے رواج کے مطابق برقع پہن لیا۔ جب وہ دونوں گھر پہنچے والدین نے روایتی انداز میں استقبال کیا۔

وحید نے گھر دیکھا تو تعجب ہوا کہ سب بہت سلیقے سے کیا گیا۔ جہاں آرا بیگم نے تمام گھر والوں کے لیے تحائف لائے تھے۔ وحید یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ وحید کے چھوٹے بھائی حمید نے شرارت کی اور چھت پر چڑھ گیا اس کے پیچھے تیزی سے وہ بھی چڑھ گیا۔ جہاں آرا بیگم خاموشی سے دیکھتی رہی اور دونوں بھائیوں نے بانسوں کے چھلے کو دوسرے حصے میں رکھ دیا۔ وحید کے کپڑے پھٹ گئے والد کے کہنے پر وہ کپڑا بدلنے اور نہانے کے لیے گیا۔ بیگم سے کہا کہ اس ماحول اور فضا نے مجھے انسانیت کا جامع اتارنے پر مجبور کر دیا۔ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ” انسانیت نہ کہیے، آئی سی ایس کا جامہ کہیے” وہ آئی سی ایس بننے کے بعد اپنی ماضی کو بھول گیا تھا لیکن ماضی کو کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم چاہے جتنا خود کو بدل لیں جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پودے ایک زمین سے نکال کر دوسری زمین میں لگا دینے سے اپنی نوعیت اور جنس نہیں بدل دیتے۔ اس لیے انسان کو اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے۔

اس کہانی کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔