فراق کی رباعیات کی تشریح،سوالات و جوابات

0

فراق کی رباعیات کی تشریح

رباعی نمبر01:

اک حلقہ زنجیر تو زنجیر نہیں
اک نقطہ تصویر تو تصویر نہیں
تقدیر تو قوموں کی ہوا کرتی ہے
اک شخص کی قسمت کوئی تقدیر نہیں

فراق گورکھپوری اپنی اس رباعی میں تقدیر کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح زنجیر کا ایک حلقہ تمام زنجیر نہیں کہلا سکتا ہے، جس طرح سے ایک نقطہ مکمل تصویر تصور نہیں کیا جاتا ہے، اسی طرح سے کسی ایک شخص کی قسمت کو تقدیر یا قسمت کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا بلکہ تقدیر تو قوموں کی ہوا کرتی ہے۔جبکہ کسی قوم کی تقدیر بنانا اسی وقت ممکن ہے جب سب لوگ مل کر کوشش او جدو جہد کریں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:شاعر کس طرح کی تقدیر میں یقین رکھتا ہے؟اس رباعی کی روشنی میں جواب دیجیے۔

اس رباعی کی روشنی میں دیکھا جائے تو شاعر شخص واحد کی بجائے اجتماعی تقدیر پر یقین رکھتا ہے۔ اجتماعی تقدیر کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہوا کرتی ہے۔ یوں شاعر قوم کی تقدیر کا حامی ہے اور اسی کی بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔

عملی کام:

اس رباعی میں تقدیر اور قسمت دو ہم معنی الفاظ استعمال ہوئے ہیں،انھیں مترادف الفاظ کہتے ہیں۔اس طرح کے پانچ ہم معنی الفاظ لکھیے۔

حیات زندگی
حاجت ضرورت
تحمل برداشت
وطن دیار/ملک
موت اجل

رباعی نمبر02:

ہر عیب سے مانا کہ جدا ہو جائے
کیا ہے اگر انسان خدا ہو جائے
شاعر کا تو بس کام یہ ہے ہر دل میں
کچھ درد حیات اور سوا ہو جائے

شاعر فراق گورکھپوری اپنی اس رباعی میں انسانیت کے جذبے کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کی ذات اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے۔اگر انسان کی ذات سے ہر عیب کو نکال دیا جائے تو وہ انسان تو خدا ہو جائے گا۔شاعر کا کام ہے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہر انسان کے دل میں انسانیت کا درد اور احساس اجاگر کر سکے۔ انسان کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہیے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:انسان کا خدا ہو جانے سے کیا مطلب ہے؟

انسان کا خدا ہو جانے سے مراد ہے کہ انسان کا ہر طرح کے عیب سے پاک ہو جانا اور انسانیت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہو جانا۔

سوال نمبر02:”کچھ درد حیات اور سوا ہو جائے” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

کچھ درد حیات سوا ہو جانے سے شاعر کی مراد ہے کہ زندگی میں انسانیت کے درد کا مزید بڑھ جانا۔

عملی کام:

درد حیات میں اضافت کا استعمال ہوا ہے۔اس طرح اضافت والے پانچ الفاظ لکھیے۔

گلستانِ ادب، خیابانِ اردو، لذتِ ایماں، لذتِ عشق، گلشنِ عشق وغیرہ۔