Class 10 Urdu Gulzar e Urdu Notes | خاکہ مرزا چپاری کا خلاصہ

0

کتاب”گلزارِ اردو”برائے دسویں جماعت

  • سبق نمبر11:خاکہ
  • مصنف کا نام:اشرف صبوحی
  • سبق کا نام:مرزا چپاتی

خاکہ مرزا چپاری کا خلاصہ

اشرف صبوحی کا یہ خاکہ مرزا چپاتی کے بارے میں ہے،جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بھانجے تھے۔ ان کا حلیہ کچھ یوں تھا کہ گورا رنگ، بڑی ہوئی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذرا جھکا ہوا۔ چوڑا شفّاف ماتھا، تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک، مغلئی ہاڑ۔ لڑکپن تو قلعے کی درودیوار نے دیکھا ہوگا۔ جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گزرا ہے۔

جب تک جیے پرانی وضع کو لیے ہوئے جیے۔ مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی، نہ پتنگ بازی۔ مرغے لڑائیں یا بلبل، تیراکی کے بھی شوقین تھے۔ شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ اب ان کا گزر بسر پنشن پر تھا۔لیکن مرزا چپاتی نےہمیشہ مردانہ وار زندگی گزاری۔ قلعے کی گودمیں انھوں نے بازیوں کے سوا اور سیکھا ہی کیا تھا اپنے والد رحیم الدین حیاسے ایک فقط شاعری ورثے میں ملی تھی۔ پڑھنا لکھنا آتا نہ تھا۔ پھر زبان توتلی۔ مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ سو سو بند کے مسدّس ازبر تھے۔ کیا مجال کہ کہیں سے کوئی مصرع بھول جائیں۔

قلعہ مرحوم کے حالات اور موجودہ تہذیب پر ان کی نوکا جھوکی جتنی مزہ دیتی تھی، وہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے پتنگ بازی کے دنگلوں میں لے جاتے تھے۔ مرغ اور بلبلوں کی پالیاں بھی دکھائیں۔ تیراکی کے میلوں میں بھی لے گئے۔ کبوتر بھی مجھے دکھا دکھا کر اڑائے۔ سب کچھ کیا، میں جہاں تھا وہیں رہا۔ ہرجگہ ان کا دماغ کھایا۔ کبھی کبھار غصہ ہو جاتے تو ان کی آنکھیں باہر کو ابل پڑتی۔

ایک دفعہ یہ ہوا یہ کہ وہ کبوتروں کا دانہ لینے گئے۔ گلی کے نکڑ پر بینے کی دکان تھی۔ نالیوں میں پانی بہہ رہا تھا۔ ساری گلی میں کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ محلے والوں نے جا بجا پتھر رکھ دیے تھے کہ آنے جانے والے اِن پر پاؤں رکھ کر گزر جائیں۔وہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک اکڑے خاں بیچ گلی میں کھڑے ہوئے ایک خوانچے والے سے جھک جھک کر رہے ہیں۔ گلی تنگ، کیچڑ اور پانی۔ پتھروں پر ان کا قبضہ۔

کوئی بھلا اس پر گزرے تو کہاں سے گزرے۔انھوں نے اسے رستہ روکنے سے منع کیا تواس نے آگے سے جواب دیا کہ چلے جاؤ۔ مرزا کو بھی تاؤ آگیا۔ بولا کہ تمھارے سر پر سے جاؤں۔ بس پھر کیا تھا وہ تو پاس پڑوس کے دو چار آدمی نکل آئے اور بیچ بچاؤ کروا دیا ورنہ آج یا وہ نہیں تھا یا میں۔مرزا سے میں نے دلی کے زوال کے حوالے سے دریافت کیا تو وہ یوں گویا ہوا کہ توبہ توبہ تم نے تو دلّی کو دم توڑتے بھی نہیں دیکھا۔ اس کا مردہ دیکھا ہے۔ مردہ۔ وہ بھی لاوارث! میاں شہر آبادی کی باتیں قلعے والوں کے صدقے میں تھیں۔ جیسے جیسے وہ اٹھتے گئے دلّی میں اصلیت کا اندھیرا ہوتا گیا۔ اب تو نئی روشنی ہے نئی باتیں۔ اور تو خدا بخشے دلّی کی صفتیں تم کیا جانو۔ان کے مطابق اردو کی بھی کئی قسمیں تھیں۔

اوّل نمبر پر تو اردوے معلّٰی ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی۔ دوسرا نمبر قل آعوذی اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔

اخبار اور رسالوں میں اِسی قسم کی اردو، ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑونگی اردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلّم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آکا بھائیوں کی لٹھ مار، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخن داروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی بازوں اور گلیروں کا روز مرّہ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگریز، ہندوستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابو، چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں۔

پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں بینواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔انھوں نے زبان کی خوب تقسیم کر رکھی تھی۔ میں نے انھیں شاہ جہانی دیگ کی گھرچن کہاتو میری طرف دیکھ کر ایک گہرا ٹھنڈا سانس بھرا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے“ سید! ابھی تم نے کیا دیکھا ہے اور کیا سنا ہے۔ قلعہ آباد ہوتا، دربار دیکھے ہوتے تو اصلی زبان کا بناؤ سنگار نظر آتا۔ اب تو ہماری زبان بیسنی ہوگئی ہے۔

وہ لچیلی چونچلے کی باتیں، شریفوں کے انداز، امیروں کی آن، سپاہیوں کی اکڑفوں، وہ خادمانہ اور خوردانہ آداب و انکسار، شاعروں کے لچھے دار فقرے، شہروالوں کا میل جول، پرانے گھرانوں کے رسم و رواج، وہ مروّت وہ آنکھ کا لحاظ کہاں۔مجلسوں محفلوں کا رنگ بدل گیا، میلے ٹھیلے، پرانے کرتب، اگلے ہنر سب مٹتے جاتے ہیں۔ اشراف گردی نے بھلے مانسوں کو گھر بٹھا دیا، کم ظرفوں، ٹینیوں کے گھر میں دولت پھٹ پڑی۔ زمانہ جب کمینوں کی پشتی پر ہو تو خاندانیوں کی کون قدر کرتا؟ پیٹ کی مار نے صورتیں بگاڑدیں، چال چلن میں فرق آگیا۔ ہمت کے ساتھ حمیت بھی جاتی رہی۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:مرزا چپاتی کون تھے اور ان کا حلیہ کیا تھا؟

مرزا چپاتی دلی کے آخری تاج دار بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بھانجے تھے۔ ان کا حلیہ کچھ ایسا تھا کہ گورا رنگ، بڑی ہوئی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذرا جھکا ہوا۔ چوڑا شفّاف ماتھا۔ تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک، مغلئی ہاڑ تھی۔

سوال نمبر02:مرزا چپاتی نے اردو زبان کی جو قسمیں بتائیں ان کے نام اور خصوصیات لکھیں۔

مرزا چپاتی کے مطابق اردو زبان کی کوئی ایک قسم تھوڑی ہے اس کی کئی طرح کی اقسام ہیں۔ اوّل نمبر پر تو اردوے معلّٰی ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی۔ دوسرا نمبر قل آعوذی اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں اِسی قسم کی اردو، ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑونگی اردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلّم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آکا بھائیوں کی لٹھ مار، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخن داروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی بازوں اور گلیروں کا روز مرّہ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگریز، ہندوستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابو، چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں۔ پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں بینواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔ ”میں نے کہا آج تو بہرہ کھلا ہوا ہے۔

سوال نمبر03:مرزا چپاتی نے کیوں کہا کہ”دنیا کا یہی کارخانہ ہے،آج اس کا تو کل اس کا زمانہ ہے”

مرزا نے یہ جملہ اس لیے کہا کہ دنیا کی ہر چیز کو فنا ہے۔ہر عروج کو زوال ہے۔مغلوں کے چھ سو برس تخت سنبھالنے کے بعد بھی آخر ان کی سلطنت کو زوال آیا۔اس لیے یہ اس کا ئنات کا اصول ہے کہ یہ ہر ایک کو باری دیتی ہے۔

سوال نمبر04:قلعے کی پتنگ بازی اور آج کی پتنگ بازی میں کیا فرق ہے؟

قلعے کے دور میں پتنگ بازی کو بہت عروج حاصل تھا۔قلعے کے دور میں پتنگ بازی کے لیے باقاعدہ تیاریاں کی جاتی تھیں۔کئی کئ روز ڈوریں اور تکلے بنانے میں نکل جاتے تھے۔اس زمانے میں جیسے تکلے بنتے تھے آج کے زمانے میں ویسی پتنکیں بھی نہیں بنتی ہیں۔ پیچیں لڑتے اور پتنگ بازی کے باقاعدہ بڑے بڑے تہوار ہوا کرتے تھے۔پتنگ بازی کے لیے لوگ باقاعدہ کسی کی استادی میں جایا کرتے تھے۔ مگر موجودہ دور کی پتنک بازی میں یہ سب مفقود ہے۔