فقیر

0

عظیم بیگ چغتائی کی افسانہ نگاری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

افسانہ ’فقیر‘ کا خلاصہ

عظیم بیگ چغتائی اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے افسانے کو اپنی شوخی اور لطیف انداز بیان کے ذریعے ایک نئے آہنگ سے روشناس کرایا اور افسانے کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے افسانے میں مزاحیہ رجحان کو برتا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر برجستہ قلم اٹھایا۔ ان کے سبھی افسانے حقیقی اور اصلی زندگی سے ماخوذ ہیں ان کا اسلوب بیان نہایت سادہ اور شائستہ ہے۔

خلاصہ

”فقیر“ عظیم بیگ چغتائی کا مشہور افسانہ ہے۔ یہ ایک مزاحیہ افسانہ ہے جس میں انہوں نے فقیروں کی قسمیں، ان کی خوبیاں بیان کی ہیں۔مصنف کو فقیروں سے سخت نفرت ہے کہتے ہیں کیونکہ جب کبھی مجھے کوئی فقیر ملتا ہے تو مجھ سے دو گنا ہوتا ہے اور بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر واقعی رحم آتا ہے۔ ان کی مدد کرنے کا دل چاہتا ہے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ غسل خانے سے نہا کر برآمدے میں نکلا تو ایک قابل رحم فقیر کو گھر کے باہر دیکھا اس کو دروازے پر بلایا۔ مصنف نے اپنی بیوی سے فقیر کو چائے اور دو چار پیسے دینے کو کہا۔ سردی کا وقت تھا اس لئے سویٹر اور قمیض بھی بھجوا دیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ اس کی جگہ کوئی اور موٹا سا فقیر آگیا ہے اور جو ناشتہ اور کپڑے اس غریب فقیر کے لیے تھا اس کو مل گیا۔ مصنف کو بہت غصہ آیا۔ اس کا کھایا پیا خون ہو گیا وہ فقیر ہٹا کٹا انتہا سے زیادہ مضبوط ڈکار لے رہا تھا اس کو دیکھتے ہیں دعائیں دینے لگا۔

مصنف شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اتنے میں اس کا دوست بھی آ گیا۔ اس کو ساری بات بتائی اور فقیر کو وہ سزا دینا چاہتا تھا اس کو نوکری کرنے کے لیے کہا۔ اگر تمہیں دس روپیے دیے جائیں تو گھر میں نوکری کرے گا؟ تو اس نے کہا اتنے میں گزر نہیں ہوگا ڈھائی آنے روز گائے کا رزقہ ایک بیوی تین بچے ہیں اور دو سیر دودھ اکیلے پیتا ہے اور دوپہر میں سونے کی سخت عادت ہے۔ اس نے تیس روپے ماہوار تنخواہ مانگی۔

یہ سب سن کر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا اس کو پچاس بار کان پکڑ کر اٹھے بیٹھے یہ اس کی سزا ہے۔ فقیر بیٹھک میں مشغول تھا تھوڑی دیر بعد مصنف کو خیال آیا کہ پچاس سے زیادہ بار اٹھ بیٹھ کرچکا تھا۔ بعد میں یہ پتہ چلا کہ فقیر پہلوان بھی ہے۔ روز کا معمول ہے وہ سو بار تک اٹھ بیٹھ کر تا ہے۔ یہ سن کر مصنف کو غصہ آیا اس کو گھر سے باہر نکال دیا۔

کچھ دن بعد دیکھا کہ وہی فقیر آیا ہے اور ملازم سے بحث کر رہا ہے کہ اس کو اسی گھر سے ہمیشہ ملتا ہے۔ مصنف نے اسے پکڑ کر لکڑیاں پھڑوائیں اور وہ پیر دبانے لگا۔ مصنف کو ایسا لگا کہ جیسے اس کا پیر ہی ٹوٹ جائے گا۔ اس کے بعد وہ قمیص مانگنے لگا تو اس نے دینے سے انکار کردیا تو باز نہ آیا اور کہا کہ وہ بھوکا ہے کھانا ہی دے دو یعنی وہ کسی بھی قیمت پر کچھ لیے بغیر واپس جانے کو تیار نہ ہوا اور مانگنے میں کوئی کمی نہیں کی۔

اس کہانی کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔