” قومی ترانہ ” تاریخ کے آئینے میں

0

کسی بھی آزاد ملک، قوم اور ریاست کی پہچان اس کے قومی پرچم اور قومی ترانے سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہی اس کے نصب العین،  تشخص اور نظریئے کی عکاسی کرتی ہیں۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 7 برس گزر چکے تھے اور پاکستان کے پاس آئین کی طرح قومی ترانہ بھی نہیں تھا۔ شہنشاہ ایران پہلی دفعہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے تو ملکی و قومی پالیسی سے ہٹ کر بغیر ترانہ بجائے ان کا استقبال کیا گیا، جو کہ باعث شرمندگی تھا۔  1954ء تک تمام موقعوں پر اور سکولوں میں اقبال کی دو نظمیں۔۔۔۔1۔ چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا ۔۔۔۔2۔لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔۔ پڑھی جاتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی قومی ترانہ نہ بن سکی۔

24 فروری 1949ء کو 9 ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر تھے۔ اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ پورے ملک سے ترانے لکھوا کر جمع کیئے جائیں۔  کل 723 ترانے لکھے گئے جن میں سے حفیظ جالندھری،  حکیم احمد شجاع اور زیڈ ۔اے بخاری کے 3 بہترین ترانے منتخب کیئے گئے لیکن پھر حتمی طور پر حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ منتخب کر لیا گیا ،جس پر حکیم احمد شجاع نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ قومی ترانے کے حوالے سے اگر مزید بات کی جائے تو بڑے چشم کشاء حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں۔

سب سے پہلے قومی ترانے کی دھن تیار کی گئی ، اس دھن کے تخلیق کنندہ ” احمد جی چھاگلہ ” تھے۔ یہ دھن 38 سازوں پر مشتمل ہے اور اس کو 21 آلات کی مدد سے بجایا جاتا ہے۔ دھن اس قدر عوام میں مقبول ہوئی کہ کافی عرصہ ریڈیو پاکستان سے اسے نشر کیا جاتا رہا۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی مشکل دھن کو سامنے رکھ کر ترانہ لکھنا تھا ، لیکن یہ کام حفیظ جالندھری نے کر دکھایا۔ احمد جی چھاگلہ ایک اعلٰی پائے کے موسیقار تھے اور ان کی دھن کے مطابق ترانہ لکھنا بھی ایک اعلٰی پائے کے نظم نگار کے بس کی بات تھی۔

حفیظ جالندھری نے بالکل دھن کے سر ، تال ، اور لے کے مُطابق  ترانہ لکھا ۔ ترانے کے 3 بند ہیں ، ہر بند 5 مصرعوں پر مشتمل ہے ، اور اس طرح قومی ترانے کے کل 15 مصرعے ہیں اور یہ ترانہ 209 الفاظ پر مشتمل ہے۔ قومی ترانہ فارسی الفاظ کا مرکب ہے جس میں صرف ایک لفظ اردو کا ہے جو کہ ” کا ” ہے۔ قومی ترانے کا کل دورانیہ 1 منٹ اور 20 سیکنڈ ہے ۔ 13 اگست 1954ء کو قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے پہلی دفعہ ایرانی بادشاہ  رضا شاہ پہلوی کی آمد پر نشر کیا گیا۔ 

پچھلی ایک دہائی سے یہ بحث بھی چلتی آ رہی ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ قائداعظم نے ان سے  پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھوایا تھا۔ لیکن تمام زمینی حقائق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے اور گویا اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے۔  ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری ہیں اور قومی ترانہ ان کی کتاب  ” چراغ سحر ”  میں  بفضل خدا محفوظ ہے۔

ہمارے قومی ترانے کا شمار دنیا کے چند ایک بہترین ترانوں میں ہوتا ہے۔  اس کی دھن اس قدر سحر انگیز ہے کہ سامعین جب ” سایہء خدائے ذوالجلال ” تک پہنچتے ہیں تو ساری تاریخ پاکستان ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزر چکی ہوتی ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اکثر سامعین کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلک پڑتے ہیں۔ قومی ترانے میں اتنی طاقت ہے  کہ یہ سب کو مودب ہو کر سننے پر مجبور کرتا ہے اور سامعین کی سماعتوں پر مکمل کنٹرول  کیے  رکھتا ہے۔  ہمارے دو قومی نظریے،  قومی تشخص،  نصب العین اور اقبالی فکر کی عکاسی ہمارا قومی ترانہ ، قومی پرچم کے سائے تلے ہمہ وقت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستانی پرچم اور قومی ترانہ ایک دوسرے کے لیے  لازم و ملزوم لگتے ہیں۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]