Advertisement
Advertisement
خودی کیا ہے راز دورانِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

معزز سامعین جناب صدر میری تقریر کا عنوان ہے اقبال کا فلسفہ خودی۔
’خودی‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے انانیت، خود مختاری، خود غرض اور غرور و تکبر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفۂ حیات میں تکبر و غرور کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ اقبال کے نزدیک خودی نام ہے احساس غیرت مندی کا، جذبہ خودداری کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔

Advertisement

محمد اقبال کا پیغام یا فلسفۂ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفۂ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔

انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟
آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟
اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟
اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبالؔ سے پہلے غالبؔ نے بھی اُٹھائے تھے۔

Advertisement

جناب والا!
اس فلسفے میں خدابینی و خودبینی لازم و ملزوم ہیں۔ خود بینی، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذاتِ خداوندی کا ادراک اور ذاتِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے۔ خدا کو فاش تر دیکھنے کے لیے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔
کیا خوب کہا ہے اقبال نے؀

Advertisement
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اقبالؔ جس دور میں پیدا ہوئے وہ مسلمانوں کے لئے آزمائش کا دور تھا۔ مغل سلطنت غلامی میں جکڑی جا چکی تھی اور مسلمان شرمندگی اور کشمکش میں مبتلا تھے۔ یہ وہ دور تھا جب برّصغیر کا مسلمان ذہنی ایذا کا شکار تھا۔ اپنی رفعت و مرتبے کے چھن جانے کے بعد وہ بھلا بیٹھا تھا کہ بحیثیت مسلمان اس کی عظمت کیا ہے اور اس کا دین اس کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے۔ نتیجتاً مسلمانوں میں انتشار اور تفریق نے ان کو کئی طبقوں میں بانٹ دیا۔

اقبال نے خودی کو بطور نظریہ پیش کیا۔ زندگی کے ہر پہلو میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ہر عمر کے فرد کے لیے اس کو لازمی قرار دیا۔ خاص کر کہ نوجوان طبقہ جس کو آنے والے نسل کی ڈور سنبھالنی تھی۔
ابھی جستجو اور علم کے کئی مراحل سے گزر کر ہی یہ ممکن ہے کہ ہم انسان بن سکیں اور فلسفہ خودی کو جان سکیں۔

Advertisement
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں!

آپ سب کی سماعتوں کا شکریہ۔

Advertisement