سبق “چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے” از ” امتیاز علی تاج

سبق کا خلاصہ:

چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے امتیاز علی تاج کا ایک خوبصورت شہکار ہے۔جس میں چچا چھکن کے کردار کی خوبیوں کو ایک نئے پہلو سے اجاگر کیا گیا ہے۔ چچی بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ باہر تمہارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کے لیے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو۔ آپ بھی ہلکان ہوتے ہو دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہو۔

سارے گھر میں ایک ہڑ بڑی سی پڑ جاتی ہے میرا دم الجھنے لگتا ہے اور پھر تمہارے کام میں میں نے نقصان کے سوا کبھی فائدہ ہوتے بھی تو نہیں دیکھا۔ تو ایسا ہاتھ بٹانا بھلا میرے کس کام کا۔چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔ انھیں دوسروں کے معمولات میں دخل اندازی کا شوق تھا۔ آج دوپہر چچی کی طبیعت ناساز تھی۔ چچی نے دھوبن سے کہا کہ آج میرا جی اچھا نہیں ہے ، کل یا پرسوں آ جائیو تو میلے کپڑے دے دوں گی۔ چچا جو دالان میں بیٹھے تھے انھوں نے چچی کی بات سن لی اور دھوبن کو کپڑے دینے کی ٹھان لی۔

چچی کے روکنے پر بھی چچا رکنے والے نہ تھے۔وہ ایک ایک کپڑے کو خود پرکھنے لگے پھر بچوں کو جمع کیا۔ لیجیے صاحب حسب معمول سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہو گیا اور آپ نے سُنانے شروع کر دیے اپنے احکام ۔ چچا چھکن کہنے لگے کہ اب کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ جمع کرو میلے کپڑے۔ پر دیکھورہ نہ جائے کوئی۔ ایک ایک کو نا دیکھ لیجیو۔ دالان میں ڈھیر لگا دو سب کا ۔ بند و تو ہمارے کمرے میں سے میلے کپڑے سمیٹ لا۔ دو تین جوڑے تو چارپائی کے نیچے حفاظت سے لیٹے رکھے ہیں وہ لیتا آئیو۔ اورسننا وہ چھٹن یا بہو کا ایک کرتا بانس پر لپٹا ہوا کونے میں رکھا ہے۔

پرسوں کمرے کے جالے اُتارے تھے ہم نے۔ وہ بھی کھولتا لائیو اور دیکھ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے کم بخت۔ پوری بات ایک مرتبہ نہیں سن لیتا۔ایک بنیان ہمارا آتش دان میں رکھا ہے۔ بوٹ پونچھے تھے اس سے۔ وہ بھی لیتا آتا۔ جا بھاگ کر جا۔ امامی تو بچوں کے کپڑے جمع کر ۔ ہرکونے اور طاق کو دیکھ لیجیو۔ یہ بدمعاش کپڑے رکھنے کو نئی سے نئی جگہ نکالتے ہیں۔غرض ایک پانچ منٹ میں گھر کی یہ حالت ہوگئی گویا آنکھ مچولی خیلی جا رہی ہے۔

کوئی ادھر بھاگ رہا ہے، کوئی اُدھر ۔ کوئی چارپائی کے نیچے سے نکل رہا ہے کوئی کونے جھانکتا پھر رہا ہے کسی نے لیٹے ہوئے بستر سے کشتی شروع کر رکھی ہے۔ کوئی کپڑے اتار تولیہ لپیٹے بھا گا جارہا ہے۔ بھاگ جا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ چچا کے نعرے بھی سنے میں آرہے ہیں۔ ارے آئے ؟ ابے لائے؟سب کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔ سٹی گم ہے۔ ٹکریں لگ رہی ہیں۔ اب سب دالان میں کپڑوں کے گرد جمع ہو گئے۔اگلا ارشاد ہوا کہ اب کپڑوں کو الگ کیا جائے کہ کون سا کس کا ہے۔دس ہاتھ کپڑے الگ الگ کرنے میں مصروف ہو گئے۔

ہر ایک کو اپنی کارگزاری دکھانے کا خیال۔ دھوبن شیخ رہی ہے۔ اے میاں جانے دو۔ اے بھائی رہنے دو۔ میں ابھی آپ الگ الگ کر دوں گی ۔ مگر بچے کہاں سنتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ میری قمیض ہے۔“ کوئی کہتا ہے ”تمہاری کہاں سے آئی۔ یہ تو میری ہے۔ کسی کا کوٹ پر جھگڑا ہے۔ کسی کا واسکٹ پر کوئی گرتے کی ایک آستین کھینچ رہا ہے کوئی دوسری کسی کی پاجامے کے پانچوں پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔ کپڑے چور چور پھٹ رہے ہیں۔

چچا سب کے ناموں کی فہرست بنانے میں مشغول ہیں۔ بیچ میں سر اُٹھا اُٹھا کر ڈانٹتے بھی جارہے ہیں۔ پھاڑ دیا نا؟ اب کے بنانے کو کہیو کوئی نیا کپڑا۔ جو ٹاٹ کے کپڑے نہ بنا کر دیے ہوں۔ چلے جاؤ سب یہاں سے ۔ ہم اکیلے سب کام کر لیں گئے۔کپڑے گننے شروع کر دیے۔ پر اب پہلے ہی کپڑے پر نئی بحث چھٹر گئی۔ دھوبن کہے کہ قمیض چھٹن میاں کی ہے یہ۔ کچا مصر ہیں کہ نہیں جو کی ہے۔ دھوبن کہتی ہے۔ میں کیا پہلی بار کپڑے لے جا رہی ہوں۔ اتنی بھی پہچان نہیں مجھ کو؟ چچا کہتے ہیں احمق کہیں کی۔

کپڑا بازار سے لاتے ہیں ہم سلواتے ہیں ہم روز بچوں کو پہنے ہوئے دیکھتے ہیں ہم اور پہچان تجھے ہو گی ؟ شہادت کے لیے بند و کو بلوایا گیا۔ چانے اس سے پوچھا۔ یہ قمیض بنو ہی کی ہے نا؟“ بند و کی کیا مجال کہ میاں کی تردید کرے۔ ڈرتا ڈرتا بولا۔ معلوم تو کچھ ان ہی کی سی ہوتی ہے پروہ آپ ہی ٹھیک ٹھیک بتا ئیں گی ۔ ” بنو کی طلبی ہوئی۔ وہ آتے ہی بولیں ۔ واہ یہ پھٹی پرانی قمیض میری کیوں ہوتی چھٹن کی ہوگی۔

ایک گھنٹے کی محنت کے بعد کپڑوں کی فہرست بن کر تیار ہوئی۔چچا اور دھوبن کپڑوں کا حساب کر رہے تھے۔ کہ کس کے کپڑے کتنے ہیں ۔ اب جناب اِدھر دھوبن سے کہا گیا کہ تو سب کے کپڑے گن، اُدھر اپنی فہرست کی میزان ملانی شروع کی۔ دھوبن گنتی ہے۔ تو اُنسٹھ عدد بنتے ہیں۔ چا اپنی میزان ملاتے ہیں تو اکسٹھ کپڑے ہوتے ہیں۔ دھو بن بار بار کہتی ہے۔ میاں ٹھیک طرح جوڑ ڈ انسٹھ ہی ہیں ۔ ” پر چچا ہیں کہ بگڑے جا رہے ہیں۔ تیرا جوڑنا ٹھیک اور ہمارا جوڑ نا غلط ہو گیا؟ جاہل کہیں کی۔ اُٹھ کر دیکھ۔ نیچے دبائے بیٹھی ہوگی۔

دھوبن غریب ہر طرف دیکھتی ہے بار بار کپڑے گنتی ہے وہی اُنسٹھ نکلتے ہیں۔ چچا کی نظروں کے سامنے بھی ایک بار گن دیئے وہی اُنسٹھ ہی نکلے۔ آخر نئے سرے سے تمام کپڑوں کا مقابلہ کیا گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دھوبن نے بتائے تھے دو جوڑی موزے اور چچا نے لکھے تھے چار دھو بن انہیں دو عدد گنتی تھی اور چچا چار عدد۔ اس پر پھر بیچاری دھوبن کے لتے لیے گئے۔

” جوڑی کیا معنی؟ چار نہیں تھے موزے؟ یوں تو چار رومالوں کو بھی دو جوڑی لکھوا دے تو یہ ہمارا قصور ہو گا؟ لے کر اتنا وقت مفت میں ضائع کروا دیا۔ ساری عمر کپڑے دھوتے گزرگئی اور ابھی تک کپڑے گنے کا سلیقہ نہیں آیا۔غرض بارہ بجے کی آئی دھوبن چار بجے رخصت ہوئی۔چچی چچا پر چڑ گئیں کہ پورے گھر میں انھوں نے قیامت برپا کیے رکھی۔ چچا چھکن ناراض ہو کر بیٹھ گئے مگر چچی نے جب چچا چھکن سے پوچھا کہ کیا میری قمیض سے سونے کے بٹن اتارے تھے یہ سن کر چچا سٹ پٹا گئے اور دھوبن کی تلاش میں گھر سے باہر دوڑے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

چچا چھکن کو چچی بیسیوں دفعہ یہ کیوں کہہ چکی ہیں کہ گھر کے کاموں میں دخل نہ دیا کرو؟

چچی بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ باہر تمہارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کے لیے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو۔ آپ بھی ہلکان ہوتے ہو دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہو۔ سارے گھر میں ایک ہڑ بڑی سی پڑ جاتی ہے میرا دم الجھنے لگتا ہے اور پھر تمہارے کام میں میں نے نقصان کے سوا کبھی فائدہ ہوتے بھی تو نہیں دیکھا۔ تو ایسا ہاتھ بٹانا بھلا میرے کس کام کا۔

چچی نے دھوبن سے کیا کہا؟

چچی نے دھوبن سے کہا کہ آج میرا جی اچھا نہیں ہے ، کل یا پرسوں آ جائیو تو میلے کپڑے دے دوں گی۔

چچا چھکن نے کوٹھری میں داخل ہونے کے بعد کس قسم کے احکامات دینے شروع کیے؟

چچا چھکن کہنے لگے کہ اب کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ جمع کرو میلے کپڑے۔ پر دیکھورہ نہ جائے کوئی۔ ایک ایک کو نا دیکھ لیجیو۔ دالان میں ڈھیر لگا دو سب کا ۔ بند و تو ہمارے کمرے میں سے میلے کپڑے سمیٹ لا۔ دو تین جوڑے تو چارپائی کے نیچے حفاظت سے لیٹے رکھے ہیں وہ لیتا آئیو۔ اورسننا وہ چھٹن یا بہو کا ایک کرتا بانس پر لپٹا ہوا کونے میں رکھا ہے۔ پرسوں کمرے کے جالے اُتارے تھے ہم نے۔ وہ بھی کھولتا لائیو اور دیکھ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے کم بخت۔ پوری بات ایک مرتبہ نہیں سن لیتا۔ایک بنیان ہمارا آتش دان میں رکھا ہے۔ بوٹ پونچھے تھے اس سے۔ وہ بھی لیتا آتا۔ جا بھاگ کر جا۔ امامی تو بچوں کے کپڑے جمع کر ۔ ہرکونے اور طاق کو دیکھ لیجیو۔ یہ بدمعاش کپڑے رکھنے کو نئی سے نئی جگہ نکالتے ہیں۔

پانچ منٹ میں گھر کی کیا حالت ہوگئی ؟

غرض ایک پانچ منٹ میں گھر کی یہ حالت ہوگئی گویا آنکھ مچولی خیلی جا رہی ہے۔ کوئی ادھر بھاگ رہا ہے، کوئی اُدھر ۔ کوئی چارپائی کے نیچے سے نکل رہا ہے کوئی کونے جھانکتا پھر رہا ہے کسی نے لیٹے ہوئے بستر سے کشتی شروع کر رکھی ہے۔ کوئی کپڑے اتار تولیہ لپیٹے بھا گا جارہا ہے۔ بھاگ جا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ چچا کے نعرے بھی سنے میں آرہے ہیں۔ ارے آئے ؟ ابے لائے؟سب کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔ سٹی گم ہے۔ ٹکریں لگ رہی ہیں۔

بچوں نے کپڑوں کو کس طرح الگ الگ کیا ؟

دس ہاتھ کپڑے الگ الگ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ہر ایک کو اپنی کارگزاری دکھانے کا خیال۔ دھوبن شیخ رہی ہے۔ اے میاں جانے دو۔ اے بھائی رہنے دو۔ میں ابھی آپ الگ الگ کر دوں گی ۔ مگر بچے کہاں سنتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ میری قمیض ہے۔“ کوئی کہتا ہے ”تمہاری کہاں سے آئی۔ یہ تو میری ہے۔ کسی کا کوٹ پر جھگڑا ہے۔ کسی کا واسکٹ پر کوئی گرتے کی ایک آستین کھینچ رہا ہے کوئی دوسری کسی کی پاجامے کے پانچوں پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔ کپڑے چور چور پھٹ رہے ہیں۔ چچا سب کے ناموں کی فہرست بنانے میں مشغول ہیں۔ بیچ میں سر اُٹھا اُٹھا کر ڈانٹتے بھی جارہے ہیں۔ پھاڑ دیا نا؟ اب کے بنانے کو کہیو کوئی نیا کپڑا۔ جو ٹاٹ کے کپڑے نہ بنا کر دیے ہوں۔ چلے جاؤ سب یہاں سے ۔ ہم اکیلے سب کام کر لیں گئے۔

چچا اور دھوبن میں کس بات پر بحث چھڑی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟

چچا اور دھوبن کپڑوں کا حساب کر رہے تھے۔ کہ کس کے کپڑے کتنے ہیں ۔ اب جناب اِدھر دھوبن سے کہا گیا کہ تو سب کے کپڑے گن، اُدھر اپنی فہرست کی میزان ملانی شروع کی۔ دھوبن گنتی ہے۔ تو اُنسٹھ عدد بنتے ہیں۔ چا اپنی میزان ملاتے ہیں تو اکسٹھ کپڑے ہوتے ہیں۔ دھو بن بار بار کہتی ہے۔ میاں ٹھیک طرح جوڑ ڈ انسٹھ ہی ہیں ۔ ” پر چچا ہیں کہ بگڑے جا رہے ہیں۔ تیرا جوڑنا ٹھیک اور ہمارا جوڑ نا غلط ہو گیا؟ جاہل کہیں کی۔ اُٹھ کر دیکھ۔ نیچے دبائے بیٹھی ہوگی۔ دھوبن غریب ہر طرف دیکھتی ہے بار بار کپڑے گنتی ہے وہی اُنسٹھ نکلتے ہیں۔ چچا کی نظروں کے سامنے بھی ایک بار گن دیئے وہی اُنسٹھ ہی نکلے۔ آخر نئے سرے سے تمام کپڑوں کا مقابلہ کیا گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دھوبن نے بتائے تھے دو جوڑی موزے اور چچا نے لکھے تھے چار دھو بن انہیں دو عدد گنتی تھی اور چچا چار عدد۔ اس پر پھر بیچاری دھوبن کے لتے لیے گئے ۔ ” جوڑی کیا معنی؟ چار نہیں تھے موزے؟ یوں تو چار رومالوں کو بھی دو جوڑی لکھوا دے تو یہ ہمارا قصور ہو گا؟ لے کر اتنا وقت مفت میں ضائع کروا دیا۔ ساری عمر کپڑے دھوتے گزرگئی اور ابھی تک کپڑے گنے کا سلیقہ نہیں آیا۔

سبق کے آخر میں چچا چھکن گھر سے باہر کیوں بھاگتے ہیں؟

چچی نے جب چچا چھکن سے پوچھا کہ کیا میری قمیض سے سونے کے بٹن اتارے تھے یہ سن کر چچا سٹ پٹا گئے اور دھوبن کی تلاش میں گھر سے باہر دوڑے۔
چچا چھکن امتیاز علی تاج کا ایک ایسا کردار ہے جس نے اردو مزاح نگاری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ سبق کو مد نظر رکھتے ہوئے چچا چھکن کی وہ خوبیاں تحریر کیجیے جن کی وجہ سے یہ کردار ہر دلعزیز ہے۔
چچا چھکن کے کردار کی سب سے بڑی خوبی ان کی بے نیازی ہے۔ یہ کردار اپنی بے نیازی کی بنا پر ایسی دلچسپ حرکات انجام دیتا ہے کہ قاری زیرِ لب مسکرا دیتا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کے معانی لکھیے اور انہیں اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظمعنیجملے
بیسوں مرتبہ کئی مرتبہاحمد نے بیسوں مرتبہ ایک ہی غلطی دہرائی۔
ہلکان ہونا تھکا ماندہدن بھر کی محنت کے بعد مزدور تھکن سے ہلکان گھر پہنچا۔
کھج جاناناراض ہوناعلی کی بری عادت ہے کہ وہ بات بہ بات کھج جاتا ہے۔
دخل در معقولاتبیچ میں بولنا ہمیں بڑوں کے معاملات میں دخل در معقولات سے پرہیز کرنا چاہیے۔
غل مچانا شور شرابا کرنابچوں نے سڑک کنارے غل مچا رکھا تھا۔
سوانگ بھرنا فریب دینا اداکارہ نے نوکرانی کا سوانگ بھرا۔
جھک جھک کرناجھگڑا کرنا چچا اور دھوبن میں جھک جھک چل رہی تھی۔
تردید کرناانکار کرناحکومت سے خودکش حملے کی تردید کر دی۔
منہ پھٹزبان دراز علینہ ایک منھ پھٹ لڑکی ہے۔
قیامت گزرناسانحہ پیش آنا احمد کے والدین کے انتقال سے اس پہ گویا قیامت گزر گئی۔

مندرجہ ذیل جملوں کو آسان فہم انداز میں تحریر کیجیے۔

چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔چچا کی ناقدری سے وہ ناراض ہو جاتے تھے۔
لیجیے صاحب حسب معمول سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہو گیا اور آپ نے سُنانے شروع کر دیے اپنے احکام۔لیجئے صاحب معمول کے مطابق سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہوگیا اور آپ نے اپنے احکام دینا شروع کر دیے۔
چچا کو اپنی اس قابل قدر اور مہتم بالشان تجویز کی داد نہ ملی تو آپ دھوبن سے چڑ گئے۔چچا کو اپنی اس قابلِ قدر اور اہم تجویز کی تعریف نہ ملی تو آپ دھوبن سے ناراض ہو گئے۔
بندو کی کیا مجال کہ میاں کی تردید کرے۔بندو کی کیا جرات کہ میاں کی بات کو رد کرے۔
صورتیں سب کی ایسی ہیں گویا سوانگ بھر رکھاہے۔صورتیں سب کی ایسی ہیں گویا بھیس بدل رکھا ہو۔
اب تک چچا کی تیوری چڑھی ہوئی تھی ، سونے کے بٹنوں کا سنا تو ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔اب تک چچا ناراض تھےسونے کے بٹنوں کا سن تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
آدھا دن برباد کر کے کس مزے میں کہتے ہیں کہ نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو۔آدھا دن ضائع کر کے کس مزے میں کہتے ہیں کہ کام ختم کر دیا ہم نے دھوبن کا۔

مندرجہ ذیل جملوں کو ہے” اور “ہیں” کی مدد سے مکمل کیجیے۔

  • چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔
  • چچا بولے ” کیا بات ہے؟
  • بچے کپڑے ڈھونڈ رہے ہیں۔
  • آج چچا نے قسم کھالی ہے۔
  • بچے شوق سے کہانیاں سنتے ہیں۔
  • قصور کرنے والے کو قصور وار کہتے ہیں۔ .
  • اس کے پاس تین جوڑے جرابیں اور ایک رومال ہے۔

ذیل میں دی گئیں مثالوں کو دیکھتے ہوئے دیے گئے الفاظ سے حاصل مصدر بنائیے۔

  • جلنا سے جلن ، چلنا سے چلن
  • دوڑنا سے دوڑ ،چاہنا سے چاہا
  • دبانا سے دباؤ ، جھکانا سے جھکاؤ
  • ملانا سے ملاوٹ ، گرانا سے گراوٹ
  • گھبرانا سے گھبراہٹ ، مسکرانا سے مسکراہٹ
  • لڑنا سے لڑائی ، پڑھنا سے پڑھائی
  • لگنا سے لگائی ، چھبنا سے چھبن
  • بھاگنا سے بھاگی ، رکھنا سے رکھی
  • بہانا سے بہاؤ ، لگانا سے لگاؤ
  • بناںا سے بناوٹ ، سجانا سے سجاوٹ
  • آنا سے آئی ، لڑکھڑانا سے لڑکھڑائی
  • پٹنا سے پٹائی ، لکھنا سے لکھائی

درج ذیل ضرب الامثال کو درست کیجیے۔

تازہ کڑھی میں ابال آیا۔باسی کڑھی میں ابال آیا۔
کمخواب میں ریشم کا پیوند۔کمخواب میں ٹاٹ کا پیوند۔
جتنی چادر دیکھیے اتنے ہاتھ پھیلایئے۔جتنی چادر دیکھیے اتنے پاؤں پھیلایئے۔
لو ہا نہ روڑے جولا ہے سے لٹھم لٹھا۔سوت نہ کپاس جولا ہے سے لٹھم لٹھا۔
ہم بھی ہیں پانچوں شہزادوں میں۔ہم بھی ہیں پانچوں سواروں میں۔
بخشو خالہ بلی چوہا بھوکا ہی بھلا۔بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔
ماروں ہاتھ پھوٹے پاؤں۔ماروں ہاتھ پھوٹے گھٹنا۔
قاضی کے دفتر کے چوہے بھی پرانے۔قاضی کے دفتر کے چوہے بھی سیانے۔
آنکھ اوجھل شہر اوجھل۔آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
چار دن کی چاندنی پھر پرانی رات۔چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔