• سبق نمبر 33:

منتخب آیات قرآن مجید

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوۡا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلاً سَدِيۡدًاۙ‏ (۷۰)يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا(سورۃ الاحزاب: ۷۰۔۷۱)

ترجمہ:

اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمھارے کام اور بخش دے تم کو تمھارے گناہ اور کوئی کہنے پر چلا اللہ اور اس کے رسول کے اس نے پائی بڑی مراد۔

تشریح:

اس قرآنی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو سچی اور پکی بات کہنے کی ہدایت فرماتی ہے۔ سچی بات دنیا والوں کو نظر میں بھی ایمانداری کی عزت وتوقیر بڑھادیتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس میں تقویٰ اور پرہیزگاری کا کمال پیدا کرے اللہ کی رحمت کا حقدار بھی بنا دیتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک اعمال کی توفیق عطا فرمادیتا ہے کیونکہ یہ عمل کی جان سچائی ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

پھر اس آیت کے دوسرے حصہ میں فرمایا گیا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہے تو آخرت میں اس کی نجات اور کامیابی کی اللہ تعالیٰ خوشخبری دیتا ہے۔

لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃالاحزاب:۲۱)

ترجمہ :

تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی زندگی ہی بہترین نمونہ ہے۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کو اس لئے دنیا گمراہ اور غافل انسانوں کی ہدایت کے لئے نہیں بھیجتا کہ وہ انہیں صرف اللہ کے احکام سنا دیں بلکہ ان کا منصب اور ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرکے اس کے فوائد اچھی طرح ذہن نشین کرادیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حکم کی مصلحت سمجھانے کے لئے جہاں زبانی تفیسر وتوضیح کریں وہاں ان احکام پر عمل کرکے اس کے فوائد انہیں بتا دیں۔

دوسری امتوں کی یہ بدبختی ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہ السلام کی سیرت اوران کی عملی تاریخ مرتب ہی نہیں کی یا پھر دانستہ اس کو محفوظ نہ کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآنی الفاظ کلام اور آیات کی حفاظت فرمائی اس طرح احکام قرآنی کی عملی تفیسر بھی ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمادی اور وہ سب کچھ قرآنی احکام کی وضاحت ہے۔

اسی لئے مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنے اور منشائے رب کائنات کی فہم میں سیرت رسولﷺ سب سے نمایاں، راضح اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں ہماری رہنمائی کے لئے ارشاد فرمائی”کہ اے مسلمانو! تمہاری زندگی کی رہنمائی کے لئے رسول ﷺ کا عمل بہترین نمونہ ہے۔“

اسی طرح ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ سے کہلوایا کہ:
”اے نبیﷺ آپﷺ کہہ دیجئے کہ تمہیں یہ دعویٰ ہے کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع اور پیروی کرو تو اللہ تم سے محبت کرنےلگے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔“

دوسرے مقام پر ایک روایت ہمارے سامنے ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کرایا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق ہمیں بتائیں تاکہ ہم ان پر عمل کریں تو جواب میں ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا۔
کان خلقہ القرآن۔ یعنی قرآن نے جو کچھ کہا آپ نے اس پر عمل کرکے اس کا نمونہ بتادیا۔

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌ (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)

ترجمہ :

اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے ہماری رہنمائی کے لئے اپنے آخری نبی ﷺ کے اس لئے بھیجا کہ آپﷺ اللہ کے احکام پر عمل کرکے ہمیں اجتماعی زندگی میں متحد وہم خیال کردیں۔ اسی لئے آپﷺ نے قانون الہیٰ شریعت مقدسہ کو اس طرح عمل کرکے ہمارے سامنے پیش کیا کہ ہم اپنے ذاتی مفاد اور خود غرضی کو چھوڑ کر اتحاد و اتفاق کے ساتھ مجموعی طور پر اپنی زندگیاں حکم الہیٰ کے مطابق بسر کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا جتھہ بندی کر ان اور ذراذرا اسی بات پر اختلاف اللہ کوپسند نہیں۔

رسول اللہﷺ کی سیرت اور آپﷺ کے دور کے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی صلاح و فلاح کے لئے کبھی باہمی اختلاف نہ کیا اور وہ دورنبویﷺ میں متحدہ اور قوت بن کر ابھرے اور سب نیکیوں کا عام کرنے اور برائیوں کو روکنے کے لئے متحد العمل رہے۔

اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی بہتری کے لئے اس آیت کے ذریعہ نصحیت فرماتا ہے کہ اللہ کے احکام پر مضبوطی سے قائم رہو اور اپنی قوت اختلاف اور گروہ بندی کی وجہ سے ضائع نہ کرو۔ اور اگر تم نے اپنی بدقسمتی سے ایسا کیا تو تمہاری ہوا کھڑا جائے گی۔

”واعتصموا“ میں یہ نکتہ بھی ہے کہ اللہ کے احکام کو مضبوطی سے پکڑے رہنا تمہاری عزت و ناموس کی حفاظت کا سبب ہوگا۔

اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَتۡقٰٮكُمۡ‌ؕ (سورة الحجرات : ۱۳)

ترجمہ:

تحقیق تم سے اللہ کے ہاں وہی زیادہ عزت کا مستحق ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔

تشریح:

انسانوں نے اپنی سربلندی، عزت اور بلند ہونے کے لئے الگ الگ معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ کوئی مال وزر اور دولت کو عزت کا سبب سمجھتا ہے، کوئی اونچے منصب اور عہدہ کو امتیاز کا معیار قرار دیتا ہے کوئی خاندانی سلسلہ اور اپنے آباءاور بزرگوں کے کارناموں کو فخر سے بیان کرکے اپنی عزت کو سبب سمجھتا ہے، کوئی اپنی طاقت اور حسن کو اپنی برتری کا ذریعہ جانتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان میں کوئی ذریعہ عزت و احترام کے لئے کافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت سے پہلے فرمایا ہے کہ ”تم سب ایک آدم علیہ السلام کی اولاد ہو ہم نے تمہیں اس زمین پر پھیلایا اور تمہارے قبیلے اس لئے بنا دیئے کہ تم پہنچانے جاؤ“ اس لئے کسی کو اپنے قبیلہ اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر کا حق حاصل نہیں اور دوسرے اسباب دنیوی تم میں سے کسی کی برتری اور کمتری کا ذریعہ نہیں اس لئے اللہ کے نزدیک تمہاری دولت، امارت، عہدے، طاقت اور دوسرے برتری حقیقی نہیں بلکہ اللہ کی پسندیدہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والا اور نیک کام کرنے والا اور مرضی الہیٰ کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہے۔

اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِىۡ الۡاَلۡبَابِۚ( سورة آل عمران: ۱۹۰)

ترجمہ:

بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ نے کائنات پیدا کی اور اس سے فائدہ اٹھانے کا اختیار انسان کو دیدیا اسے عقل دی احساسات دیئے کہ وہ اپنی زندگی کے لئے فائدہ مند چیزوں کو کام لائے پیاس دی تو اس کے مدد کرنے اور اس کی زحمت سے بچنے کے لئے میٹھا اور خوشگوار پانی دیا۔ دن بھر جدوجہد کے بعد تمازت(سورج کی دھوپ) گرمی اور تکان سے نجات دینے اور آرام کرنے کے لئے دن کی حرارت ختم کرکے ٹھنڈی اور پرسکون رات دی۔ اور اسے کھانے پینے کے لئے خوشگوار فضائیں مہیا کیں۔ انسان کو نقصان اور فائدہ کو سمجھنے کے لئے شعور نواز یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر خالق کائنات کا شکر ادا کرے۔

لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (سورة آل عمران ۹۳)

ترجمہ :

تم ہر گز زندگی میں کمال حاصل نہ کر سکو گے جب تک اپنی پیاری چیز میں سے خرچ نہ کرو۔

تشریح:

جب انسان دنیا میں کسی سے کچھ پاتا ہے تو فطری طور پر اس کا احسان ادا کرنا پسند کرتا ہے اور اسے اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک اس احسان کا بدلہ نہ چکا دے یہ ہر انسان کی فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ ممنونیت ہر انسان میں پیدا کیا ہے بعض انسان خود فریبی سے کسی نہ کسی طرح اپنے دلی سکون کے لئے رسمی طور پر اس کا شکریہ کسی بے ضرورت اور ناکارہ چیز کو دے کر اپنے دل اور فطرت کو مطمئن کرنے کو کوشش کرتے ہیں۔ لیکن واقعتاً اس کے انعام کا شکریہ نہیں ہوتا۔

اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام پر اتنا اثر ہوا کہ ایک صحابی نے خدمت اقدسﷺ میں آکر عرض کیا یا رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ نے اپنی پسندیدہ چیز کو مرضی الہیٰ کے لئے دینے کی ہدایت فرمائی میرے باغ میں ایک کنواں ہے جس کا پانی بہت ٹھنڈا اور خوش ذائقہ ہے جو مجھے بے حد پسند اور مرغوب ہے میں راہ اللہ میں اسے وقف کرتا ہوں اب یہ سب مسلمانوں کی ملکیت ہے۔

وَمَا اتكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نھُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (سورة الحشر:۷)

ترجمہ:

اور جو دے تم کو رسول (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلّم )سولے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو۔

تشریح:

آیت کا مفہوم عام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم جو کام کرنے کو فرمائیں فوراً کرو اور جس سے روکیں اس سے رُک جاؤ۔ یعنی ہر عمل اور ارشاد میں آپ صلی اللہ علیہ و علی الہ واصحابہ وسلم کی تعمیل ہونی چاہیے۔ گویا اس آیت میں صحیح اسلامی زندگی گزارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ برحق ہے اور اللہ کی ہدایت سے احکام بیان فرماتے ہیں اور خود عمل کرتے ہیں۔

إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (سورة العنكبوت: ۳۵)

ترجمہ:

بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے۔

تشریح:

آیت بالا کے اس ٹکڑے نے واضح کیا ہے کہ نماز میں ایسی خوبی ضرور ہے جس کے سبب نمازی بے حیائی اور برائی سے بچ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی بیماری کی تشخیص ہو جائے اور اس کے لیے مناسب دوائی بھی تجویز ہو تو دوا ضرور اثر دکھاتی ہے۔ بشر طیکہ بیمار کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دوا کی تاثر کے خلاف ہو۔ اس اعتبار سے واقعی نماز بھی قوی التاثیر ہے۔ اس کا ایک اور مفہوم یہ بھی ہے کہ نماز کے اندر چند ایسی خوبیاں ہیں جن کی موجودگی میں اس آدمی کے لیے جو واقعی نماز خلوص سے پڑھتا ہو، ممکن نہیں کہ بے حیائی اور برائی کی طرف جھکے۔

وَلَا تَكْسِبُ كُل نفس إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وَزرَأَخْرى (سورة الانعام: ١۶٥)

ترجمہ:

اور جو کوئی گناہ کرتا ہے سو وہ اس کے ذمہ پر ہے اور بوجھ نہ اٹھائے گا ایک شخص دوسرے کا۔

تشریح:

جس طرح ہر انسان اپنی پیدائش اور موت میں دوسروں سے الگ ہے اسی طرح دنیا میں بھی اس کی زندگی کے فوائد اور نقصانات کا وہ خود ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ نزول قرآن سے پہلے گزشتہ امتوں نے عذاب آخرت سے بچنے کے لئے مختلف خود ساختہ عقائد اور من مانی تاویلوں کے ذریعے اپنی بداعمالیوں کی سزا سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے بزرگوں کی مقدس شخصیتوں کی سفارش کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کلام قرآن حکیم کے ذریعے دنیا والوں کو کھلے طور پر اس آیت کے ذریعہ بتا دیا کہ ہر عمل کی سزایا جزا انسان کے اپنے عمل کے مطابق ہوتی اور اللہ کے نزدیک ہر ایک اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔

إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ( سورة النحل :۹)

ترجمہ:

بے شک اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا۔

تشریح:

آیت کے اس حصہ میں عدل و احسان کا حکم دیا گیا ہے۔ عدل کے معنی انصاف کے ہیں۔ یعنی کسی کو اس کا پورا حق ادا کرنا، اور احسان یہ ہے کہ کسی سے اس کے حق سے بڑھ کر مروت اور نیکی کرنا۔ اس آیت میں جہاں لین دین کے معاملے میں انصاف کرنے کا حکم موجود ہے وہاں سب عقائد، اخلاق اور اعمال کے معاملے میں بھی انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پوری آیت میں تمام بھلائیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ اس لیے اس آیت کی جامعیت کے پیش نظر حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس آیت کو خطبہ جمعہ کے آخر میں شامل کر دیا تھا۔ جو آج تک جمعہ کے روز خطبہ کے آخر میں پڑھا جاتا ہے۔