Nazm Malma Ki Anghothi | نظم ملمع کی انگوٹھی کی تشریح

0
  • کتاب”اردو گلدستہ” برائے ساتویں جماعت
  • سبق نمبر 01: نظم
  • شاعر کا نام: اسماعیل میرٹھی
  • نظم کا نام: ملمع کی انگوٹھی

نظم ملمع کی انگوٹھی کی تشریح

چاندی کی انگوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول

یہ شعر اسماعیل میرٹھی کی نظم سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ایک انگوٹھی پہ ملمع چڑھانے کی کہانی کو بیان کیا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہ سونے کا جھوٹا خول چڑھایا گیا۔ یہ چاندی کی انگوٹھی بہت اوچھی تھی اس نے جیسے ہی اپنی اوقات بدلتے دیکھی تو وہ اترا کر بڑے بڑے بول بولنے لگ گئی۔ شاعر نے انگوٹھی کے پس منظر میں ان لوگوں کو بیان کیا ہے جو اپنے حالات بدلنے کے ساتھ جلد ہی اوقات بھی بدل لیتے ہیں۔

اے دیکھنے والو تمہی انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے دیکھنے والوں تم سے انصاف طلب کرتے ہیں تم ہی انصاف کرو کہ چاندی کی انگوٹھی بھی تو زیورات میں سے ایک طرح کا زیور ہی ہے۔

چاندی کی انگوٹھی کے نہ میں ساتھ رہوں گی
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہوں گی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں چاندی کی انگوٹھی کے ساتھ ہر گز نہیں رہوں گا وہ کمتر ہے اور میں یہ ذلت ہر گز نہیں سہوں گی۔

میں قوم کی اونچی ہوں بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے نہیں اس کا ٹھکانا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی سونے کی ہو جانے کے بعد یہ کہتی ہے کہ میری قوم بھی اونچی ہے اور میرا تعلق بھی اونچے گھرانے سے ہے۔ چاندی کی انگوٹھی کی ذات بھی گھٹیا ہے اور اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

میری سی کہاں چاشنی میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں میرے نہیں پاسنگ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ سونے کی انگوٹھی یہ کہتی ہے کہ میرے جیسی مٹھاس اور رنگ و روپ چاندی کی انگوٹھی میں کہاں ہے۔ وہ قیمت اور وزن میں کبھی میری برابری نہیں کر سکتی ہے۔

میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی کو سونے کی انگوٹھی یہ کہتی ہے کہ تم میں میرے جیسی چمک دمک ہر فز موجود نہیں ہے۔ یہ انگوٹھی چاندی ہی کی ہے یا کوئی دھوکہ ہے مجھے تو اس بات میں بھی شک ہے۔

یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے ملمع کی انگوٹھی تیرے چھل بل

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ سونے کی انگوٹھی کی تمام باتیں سن کر چاندی کی انگوٹھی سے خاموش نہ رہا گیا وہ جل گئی اور کہنے لگی کہ اے جھوٹی ملمع کی انگوٹھی تمھارے کتنے دھوکے اور باتیں ہیں۔

سونے کی ملمع پہ نہ اترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اتر جائے گی ساری

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی یہ کہتی ہے کہ سونے کے جھوٹے پانی پہ تم ہر گز مت اتراؤ۔ اس پانی کی چمک دو دن میں تم پر سے اتر کر ختم ہو جائے گی۔

کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے جو سچوں کو چڑھایا بھی تو پھر کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی سونے کی انگوٹھی کو یہ کہتی ہے کہ اگر اس پانی نے کچھ دیر کے لیے تمھاری حقیقت کو چھپا دیا ہے تو اگر ان جھوٹوں نے تمھیں سچوں کی سیڑھی پہ چڑھایا بھی ہے تو یہ کیا بات ہوئی۔

مت بھول کبھی اصل تو اپنی اری احمق
جب تاؤ دیا جائے گا ہو جائے گا منہ فق

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انگوٹھی کہتی ہے کہ اے بے وقوف کبھی بھی اپنی اصل اوقات مت بھولو کیونکہ جب تمھیں گرم کیا جائے گا تو تم پہ سے یہ نکلی پانی نکل جائے گا اور تمھارا تمام رنگ اڑ جائے گا۔

سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی سچے کو پرکھا بھی جائے گ اتو اس کے سچ کی بدولت اس کی عزت بڑھے گی نہ کہ اس میں کوئی کمی`آئے گی کیوں کہ یہ کہاوت بھی مشہور ہے کہ سچ کو کوئی ہرا نہیں سکتا ہے۔

کھونے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کے ابھرنا نہیں اچھا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انگوٹھی یہ کہتی ہے کہ کسی کھوٹے کو کھرا بن کر نہیں نکھرنا چاہیے بالکل ایسے ہی کسی چھوٹے کو بھی بڑا بن کر نہیں ابھرنا چاہیے کہ جو جس طرز پہ بنایا گیا ہے اسے اس کے اصل میں رہنا چاہیے۔

سوالات:

ملمع کی انگوٹھی کیوں اترانے لگی؟

ملمع کی انگوٹھی پہ سونے کا پانی چڑھا تو وہ اترانے لگی۔

چاندی کی انگوٹھی نے اس کی کیسے خبر لی؟

چاندی کی انگوٹھی سونے کی انگوٹھی کو کہنے لگی کہ اتنی بھڑک اچھی نہیں کہ دو دن میں تمھارا ہہ ملمع اتر جائے گا۔یوں تمھاری اصلی شکل پھر سے سامنے آجائے گی۔

اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول“ کا مطلب بیان کیجیے۔

اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول سے مراد ہے کہ چاندی کی انگوٹھی کم ظرف تھی کہ جیسے ہی اس پہ سونے کا پانی چڑھا تو وہ غرور میں آکر بڑے بول بولنے لگ گئی۔

سانچ کو پچھ آنچ نہیں‘ اس مثل کا مطلب لکھیے۔

اس مثل سے مراد ہے کہ سچ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے۔

”چھوٹے کو بڑا بن کے اترانا نہیں اچھا شاعر کی اس سے کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ اگر کسی چھوٹے یا کم حثیت کو اگر کوئی بڑا رتبہ مل جائے تو بڑا رتبہ پا کر اسے غرور میں نہیں آنا چاہیے۔