اسماعیل میرٹھی | Ismail Merathi Biography In Urdu

0

اسماعیل محمد میرٹھی، شیخ پیر بخش کے بیٹے تھے۔ ان کی ولادت 12 نومبر 1844ء میں میرٹھ میں ہوئی۔ انھوں نے گلستان، بوستان، اور شاہنامہ وغیرہ فارسی اور عربی کتابوں سے نصابی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نارمل اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے انجینئرنگ کالج سے ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کی۔ 16 سال کی عمر سے ہی اسماعیل نے بطور کلرک کام کرنا شروع کردیا۔ بعد ازاں 1868ء سے 1870ء کے دوران وہ سہارنپور ضلع کے ایک اسکول میں فارسی معلم کے عہدے پر فائز ہوۓ۔

پہلے سہارنپور پھر میرٹھ میں ایک عرصے تک اسی عہدے پر قائم رہنے کے بعد 1888ء میں آگرہ میں تبادلہ لیا۔ آگرہ میں بارہ سال تک فارسی کے استاد کے طور پر کام کرکے 1899ء میں اس عہدے سے فارغ ہوئے اور اپنے وطن میرٹھ لوٹے۔ بقیہ زندگی تصنیف و تالیف میں وقف کر دی۔

اسماعیل میرٹھی نئے طرز و خیال والے نمایاں شاعر تھے اور وہ بچوں کی نظموں کے ایک امتیازی شاعر مانے جاتے تھے۔ اسماعیل کو پرانے زمانے کی نظموں کے غیر حقیقی تصور اور اظہار بے حد ناپسند تھا۔ انھوں نے روایتی طرز کو ترک کرکے ہمیشہ نئے طریقوں سے تجربہ کیا۔ وہ سادگی اور اصل طریقے کی نظم کاری کرتے تھے۔ 1880ء میں ان کی تخلیق ‘رضائے جواہر’ جاری ہوئی۔ اس کے علاوہ 1910ء میں ‘کلیاتِ اسماعیل’ اور 1939ء میں ‘حیات و کلیاتِ اسماعیل’ شائع ہوئی۔

شاعری کی ہر قسم مثلاً مثنوی، غزل، رباعی، قصیدہ وغیرہ میں اسماعیل میرٹھی نے اپنے جواہرات دکھائے۔ لیکن انھوں نے اپنے کلام کی شروعات غزل گوئی سے کی۔ وہ فارسی سے انتہائی رغبت رکھتے تھے کیونکہ ان کی تعلیم و تربیت فارسی ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی شاعری میں خلوص و صداقت پراعتماد ملتا ہے۔ اس اعتماد کی بنیاد محبوبِ حقیقی کی محبت ہے۔

اسماعیل میرٹھی نے بچوں کی متعدد نصابی کتابوں کی تصنیف بھی کیں۔ غزلوں کے علاوہ انھوں نے اخلاقیات پر مبنی نظمیں، کہانیاں اور قصے لکھے ہیں جن سے عمدہ اخلاقی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں جانوروں اور پرندوں کے موضوعات پر بیشتر نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں کہانی کے انداز میں زندگی کا شعور اور ذہنی تربیت کا سامان ملتا ہے۔ ان نظموں میں “ایک گھوڑا اور سایہ، ایک کتا اور بلی، ایک کتا اور اس کی پرچھائیں،  چھوٹی چیونٹی، اسلم کی بلی، کچھوا اور خرگوش” وغیرہ شامل ہیں جو دکھاوا اور ظاہری حسن کی مثال دیتے ہوئے بچوں کو سچائی اور اخلاقی حسن کی طرف راغب کرتی ہیں۔ ان کی نصابی کتابیں ہزاروں مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔

اسماعیل میرٹھی نے اپنی نظموں میں سماجی بگاڑ پر آہ و زاری کرنے کے بجائے ان روایات کی اہمیت و عقیدت پیش کی ہے جن سے زندگی میں بہتری اور کامیابی آتی ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات عام لوگوں اور حالات سے قریب ہونے کے باوجود سبق آموز اور نصیحت بخش ہوتے تھے۔ اور میرٹھی ان موضوعات کو جس طرح استعارات و تشبیہات کے انداز میں بیان کرکے زندگی کے اصول پیش کرتے تھے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ان کی اعلیٰ قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں انھیں خان صاحب کا لقب ملا۔ یکم نومبر 1917ء کو اس عظیم شاعر کی میرٹھ میں وفات ہو گئی۔

written By

Tehreem Shaikh