تشبیہ کسے کہتے ہیں

0

کسی چیز کو کسی خاص صفت کے اعتبار سے دوسری چیز کے مانند قرار دینا تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً: علی شیر کی طرح بہادر ہے۔

تشبیہ لفظ “شبہ” سے بنایا گیا ہے جس کے معنی مثال دینے یا کسی دو چیزوں کے درمیان مشابہت ظاہر کرنے کے ہیں جس سے کہنے والے کا مقصد پوری طرح واضح ہو جائے۔ یہ مشابہت کسی لفظ کے ذریعے ظاہر کی جاتی ہے یعنی تشبیہ دو چیزوں کے مابین باہمی مشابہت کا نام ہے۔تشبیہ کے چار ارکان ہیں

  • جس چیز کو کسی دوسری چیز کے مانند ٹھہرایا جائے اسے “مشبہ” کہتے ہیں۔
  • جس سے تشبیہ دی جائے اسے “مشبہ بہ” کہتے ہیں۔
  • جن مشترک عناصر کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دی جائے اسے “وجہ شبہ” کہتے ہیں۔
  • مشابہت قائم کرنے کے لیے جن حروف کا استعمال کیا جاتا ہے انہیں “حرف تشبیہ” کہتے ہیں۔
  • تشبیہ کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ “جیسا، مانند ، مثل، سا، سی، برابر وغیرہ۔ اس سلسلے میں میر کا مشہور شعر دیکھئے۔
نازکی ان کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

مندرجہ بالا شعر میں محبوب کے لبوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان دونوں میں جو صفت مشترک ہے وہ ہے لبوں کی نازکی، خوبصورتی اور رنگین مزاجی۔ اس شعر میں محبوب کے لب ہوئے “مشبہ” اور گلاب کی پنکھڑی “مشبہ بہ” ہوئی اور نازکی “وجہ تشبیہ” ہوئی اور حرف “سی” حرف تشبیہ ہوا۔

لیکن یہ ضروری نہیں کہ تشبیہ میں ہر جگہ وجہ تشبیہ اور حرف تشبیہ ضرور ہوں۔ کئی بار ان دونوں ارکان کے بغیر بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ جیسے کسی بہادر کو شیر سے تشبیہ دیں تو کہا جائے گا کہ “وہ شیر ہے” یا “وہ شیر کی طرح ہے”

ان جملوں میں پہلے جملے میں حرف تشبیہ مذکور نہیں ہے لیکن دوسرے جملےمیں “شیر کی طرح” میں “طرح” حرف تشبیہ ہے اور یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ تشبیہ کے لیے کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خصوصیت جس کی بنا پر تشبیہ دی جائے مشبہ کی بانسبت مشبہ بہ سے زیادہ اعلی ہو۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی برتری حقیقت میں ہو۔ البتہ اگر تشبیہ دینے والے کے خیال کے مطابق برتری ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن ایسی مشابہت کے لیے کسی قسم کی دلیل موجود ہونی چاہیے۔ مثلاً یہ کہ “راشد شیر ہے” تو اس میں شیر برتر ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ کو بھی ادنیٰ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جیسا کہ خدا کے نور کو آفتاب سے تشبیہ دیں۔ حالانکہ خدا اور اس کا نور جو سب سے اعلی و ارفع ہے اور خدا کے نور کے مقابلے میں آفتاب ادنیٰ تشبیہ ہے حالانکہ خدا کی ذات تشبیہ سے بالاتر ہے۔

  • تشبیہ کو کیفیت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ تشبیہ حسی اور تشبیہ عقلی۔ اس کے علاوہ تشبیہ کو مقدار کے اعتبار سے مفرد اور مرکب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

کیفیت کے اعتبار سے تشبیہ کی اقسام

1۔ تشبیہ حسی

تشبیہ حسی سے مراد ایسی تشبیہ ہے جس کا ادراک حواس خمسہ یعنی دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کے ذریعے ہو۔ مثلاً سننے والی تشبیہ کی مثال یہ غالب کا شعر ملاحظہ ہو۔

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

بلبلوں کے چہچہانے کو شاعر غزل خوانی سے تشبیہ دے رہا ہے۔ دیکھنے والی تشبیہ کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔

یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتا ب کے

یہ تشبیہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے یعنی برچھیاں اور آفتاب دیکھنے کی چیزیں ہیں۔

2۔ تشبیہ عقلی

عقلی تشبیہ وہ ہے جس کا ادراک ظاہری حواس کے بجائے وجدان اور تخیل پر مبنی ہو۔ مثلاً:

شعلے سے نہ ہوتی ہوس شعلے نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے

افسردگی اور جی کا جلنا دونوں عقلی ہیں۔ یعنی عقل سے دل کی افسردگی اور جی کے جلنے کا ادراک ممکن ہے۔

مقدار کے اعتبار سے تشبیہ کی اقسام

1۔ مفرد تشبیہ

مفرد تشبیہ وہ ہے جس میں ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند ٹھہرایا جائے۔ مثلاً گل کو خوبصورت چہرے کے مماثل ٹھہرانا یا چہرے کی تابناکی کو آفتاب سے ظاہر کرنا۔ مثلاً:

جلوے خورشید کے سے ہوتے ہیں
نغمے ناہید کے سے ہوتے ہیں

2۔ مرکب تشبیہ

اس سے مراد وہ تشبیہ ہے جس میں چند اشعار کی ترکیب سے جو مجموعی شکل بنتی ہے، اسے کسی دوسری مجموعی شکل سے تشبیہ دینا مرکب تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً:

نفس کی آمد و اشھد ہے نماز اہل حیات
جو یہ قضا ہو تو اے غافلو قضا سمجھو

اس شعر میں سانس کی رفتار کو نماز کی مجموعی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح نماز میں قیام، رکوع اور سجود کے لئے اوپر اٹھنا اور کبھی نیچے جھکنا ہوتا ہے اسی طرح سانسوں کے زیر و بم بھی زندگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ تشبیہ کی دو اور قسمیں ہیں یعنی قریب و بعید۔

1۔ تشبیہ قریب

جو تشبیہ جلدی سمجھ میں آجائے اور مشبہ کا تعلق مشبہ بہ سے بہت واضح ہو وہ تشبیہ قریب کہلاتی ہے۔ مثلاً:

وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

علم بلاغت میں تشبیہ قریب کا شعر معمولی اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔

2۔ تشبیہ بعید

جس تشبیہ میں وجہ تشبیہ کو سمجھنے میں غوروفکر کی ضرورت ہو اسے تشبیہ بعید یا تشبیہ غریب کہتے ہیں اور اگر تشبیہ میں وجہ تشبیہ کئی تراکیب سے مل کر بنے تو وہ تشبیہ نہ صرف دور کی ہوگی بلکہ زیادہ لطافت اور بلاغت سے بھی پر ہوگی۔ مثلاً:

تشبیہہ رگ گل سے انہیں دوں تو ہے زیبا
ڈورے ہیں تیرے آنکھ کے اے رشک قمر سرخ

یہاں آنکھوں کے ڈوروں کو رگ گل سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان ڈوروں کی وجہ خوبصورتی، باریکی اور سرخی ہے۔ اس شعر سے محبوب کے نشے میں ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

تشبیہ مفصل

اگر تشبیہ میں وہ خصوصیت جس کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دی گئی ہو، اس کا ذکر ملتا ہے تو ایسی تشبیہ کو مفصل کہتے ہیں ورنہ مجمل ہے۔جیسے کہیں کہ “شاہدہ حسن میں آفتاب کی مانند ہے” تو یہ تشبیہ مفصل ہوئی یعنی اس جملے میں مفہوم واضح ہے اور وجہ تشبیہ بتا دیا گیا ہے۔ لیکن اگر یوں کہیں کہ “شاہدہ آفتاب کی طرح ہے” تو یہاں لفظ “حسن” جو وجہ تشبیہ ہے، اس کا ذکر نہیں ملتا اس لیے یہ تشبیہ مجمل ہوئی۔