بچوں کو نماز کا عادی بنانے کا طریقہ

0

بچوں کے اندر نماز کی عظمت اس کی پابندی اور اس کا عادی بنانے کے لئے ہمارے پاس بہت سے اچھے واقعات ہیں جن کی نقل کر کے ہم اپنے بچوں کو نماز کا عادی بنا سکتے ہیں ہیں۔ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ اس ضمن میں ہماری بہت رہنمائی کرتا ہے۔

واقعہ کچھ اس طرح ہےکہ جب بابافرید الدین بہت چھوٹے تھے تو ماں نے چاہا کہ میرا بیٹا نمازی بن جاے۔ ایسا مشاہدہ کیا جاتا ہے کی اکثر چھوٹے بچوں کو مٹھائی زیادہ پسند ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اپنی ماں سے کہا کہ اگر میں نماز پڑھوں گا تو مجھے کیا ملے گا؟ ماں نے جواب دیا بیٹا تجھے شکر ملے گی اور پھر وضو کروایا اسی دوران ماں نے انکے مصلے کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیں۔

جب وہ نماز پڑھ چکے تو انہیں شکر کی پڑیا ملی۔ پھر اسی طرح ماں پنچگانہ نماز کے وقت شکر کی پڑیا ان کے مصلے کے نیچے رکھ دیا کرتیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوتے تو وہ شکر کی پڑیا مصلے کے نیچے پاتے تھے۔ اس طرح انکی ماں نے انہیں نمازی بنادیا۔ زندگی ایسے ہی گزرتی رہی پھر جب تھوڑے بڑے ہوئے تو اتفاق سے باہر کھیلنے گئے تو وہاں پر نماز کا وقت ہوگیا تو انہیں وہاں نماز پڑھنے کا خیال آیا انہوں نے مصلی بچھایا تو دوستوں نے پوچھا کیا کرنے جا رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ نماز پڑھکر مصلی کے نیچے سے شکر کی پڑیا ملتی ہے؟

ادھر گھر پر ماں کو خیال آیا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور میرا بیٹا جہاں بھی ہوگا آج میں اسکے مصلے کے نیچے شکر کی پڑیا نہیں رکھ سکوں گی اور اگر آج شکر کی پڑیا اسے نہیں ملی تو اس کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ پھر ماں سجدے میں چلی گئی اور رب کی بارگاہ میں دعا کی کہ آج غیب سے انتظام فرمادے۔ چنا نچہ جب بابافرید الدین نماز پڑھ کر مصلی اٹھاتے ہیں تو انہیں شکر کا خزانہ ملتا ہے۔ اسی لیے آپ کا لقب شکر گنج پڑگیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ ماں کی ٹریننگ کا اثر تھا۔

آج ہماری مائیں اوربچے چاہتے ہیں کہ انگلش بولیں اور ڈانس کریں۔خدارا ان تمام چیزوں پر ‏توجہ نہ دیں ورنہ بڑھاپے میں سوائے افسوس کے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور بچے نجات کا ذریعہ نہیں بن سکے گے۔

اسی طرح بچوں کو نماز کا عادی بنانے کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور کا واقعہ کچھ اس طرح ہے۔ ایک شخص بہت ہی گنہگار اور سیاہکار تھا اس کی بیوی حاملہ تھی۔ وہ مرنے سے پہلے اپنی بیوی کو وصیت کرتا‌ ھے کہ جو بچہ اس کے رحم میں پل رہا ہے جب وہ بچہ پیدا ہو اور چلنے اور بولنے کے لائق ہو جائے تو اسے قرآن کریم اور دین کی تعلیم دینا اور اللہ کی باتیں سکھانا۔

اس وصیت کے بعداس شخص کا انتقال ہوگیا۔ پھر بچے کی پیدائش ہوئی، جیسے ہی بچے نے بولنا شروع کیا تو ماں کو اپنے شوہر کی وصیت یاد آئی تو ماں بچے کی انگلی پکڑ کر اسکو مدرسے لے گئی۔ جیسے ہی بچہ مدرسے پہنچا استاذ نے *بسم اللہ الرحمٰن الرحیم* پڑھایا۔ پھر جیسے ہی بچے نے بسم اللہ پڑھا اس کے والد کو قبر میں جو عذاب دیا جا رہا تھا اللہ تعالی نے اس آدمی سے اس عذاب کو ہٹا لیا۔

بیوی خواب میں دیکھتی ہے کہ ان کے شوہر پر عذاب ہو رہا تھا پھر ان سے عذاب کو اٹھا لیا گیا تو وہ رب سے پوچھتی ہیں کہ میرے شوہر سے عذاب اٹھانے کی وجہ کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ جسکا بچہ زمین پر مجھے رحمن ورحیم کہکر پکارے میری رحمت گوارہ نہیں کرتی کہ میں اس بچے کے باپ کو قبر کے اندر عذاب دوں۔ پتہ یہ چلا کہ ہم اپنے بچوں کو دین سکھائیں تاکہ ہمارے بچے ہماری قبر کیلئے نجات کا سامان بن جائیں۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو نماز کا پابند بننے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی نماز کا عادی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔