سبق سینما کا عشق کا خلاصہ

0

سبق کا خلاصہ

سینما کا عشق پطرس بخاری کا طنز و مزاح سے بھرپور مضمون ہے۔جس میں مصنف نے اپنے دوست مرزا صاحب کے ساتھ اپنے فلم دیکھنے جانے کے تجربے کو بیان کیا ہے۔اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ میں کبھی وقت پر سینما میں نہیں پہنچ پاتا اس میں میری سستی کی بجائے میرے دوست مرزا صاحب کی سستی اور کاہلی کو دخل ہے۔

میں ہمیشہ ایک ہفتہ پہلے سے سینما دیکھنے کا پروگرام بناتا تھا۔ایک ہفتہ پہلے سے ہی سینما کا پروگرام اس لیے بناتا تھا تا کہ ان کے دوست مرزا صاحب پہلے سے تیار رہیں اور اپنی مصروفیات کچھ اس انداز سے ترتیب دے لیں کہ فلم دیکھنے کے روز ان کے کسی کام کا کوئی ہرج نہ ہو۔ بار بار مرزا صاحب کو یقین دہانی کروائی کہ جمعرات کے روز ہمیں سینما کے لیے جانا ہے اور چھے بجے سینما کا وقت شروع ہوتا ہے۔آخر جمعرات کے روز میں جلدی جلدی تیار ہو کر مرزا صاحب کے گھر جا پہنچا تو مرزا صاحب کو کہیں بھی موجود نہ پا یا۔

مرزا کے انتظار سے تنگ آکر میں نے مردانے کے سب کمرے گھومے،ہر کھڑکی سے جھانکا،مرزا صاحب کو آوازیں لگائیں۔پھر بھی ان کے آنے کا کچھ معلوم نہ ہوا تو میں کمرے میں جا بیٹھا۔ پندرہ منٹ سیٹیاں بجائیں۔ دس پندرہ منٹ تک پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصاویر بناتا رہا۔باہر نکل کر دیکھنے پر بھی جب مرزا کا نام و نشان نہ ملا تو میں نے واپس کمرے میں آکر اخبار پڑھنا شروع کردیا۔ہر کالم کے مطالعے کے بعد مرزا صاحب کو آواز دینے لگے۔

آخر کافی وقت بعد مرزا صاحب زنان خانے سے نمودار ہوئے۔ جب میں نے نہایت خوش اخلاقی سے پوچھا کہ اگرآپ اندر موجود تھے تو میری بات کا جواب کیوں نہ دیا تو کہنے لگے کہ مجھے لگا نجانے کون ہو گا۔خود پر ضبط کرتے ہوئے میں نے انھیں سینما جانے کی یاد دہانی کروائی تو کہنے لگے کہ مجھے یاد ہے۔آخر چلتے چلتے انھیں کپڑے بدلنے کا خیال ہوا۔مرزا صاحب کا کپڑے بدلنے کا عمل اس قدر طویل ہوا کرتا تھا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں قانون کی رو سے انھیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔

آدھے گھنٹے بعد جب وہ کپڑے بدل کر آئے تو پان کھانے کے لیے رک گئے۔ تمام۔راستے وہ اس رفتار سے چلتے رہے کہ ہر دو تین لمحوں کے بعد میں خود کو ان سے دو تین قدم آگے پاتا اور پھر رک کر ان کا انتظار کرتا تھا۔ جب سینما ہال پہنچنے تو ٹکٹ لینے کے بعد ہال میں داخل ہوا تو وہاں گھپ اندھیرے کا راج تھا۔رستہ، کرسی،دیوار اور آدمی میں کچھ فرق سجھائی نہ دے رہا تھا۔ایسے میں میرا سر ان بالٹیوں سے جا ٹکرایا جو دیوار پر آگ بجھانے کے لیے لٹکائی گئی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد میں نے تاریکی میں جس کرسی کو خالی دھبہ سمجھا اورآگے بڑھا اس نشست پر کو ئی براجمان تھا۔جس کی گود میں،میں جا بیٹھا۔وہاں سے دھکے کھانے کے بعد وہ خالی کرسی تک پہنچے تو میرے آگے موجود کرسی پر بیٹھا ہوا شخص کبھی انگڑائیاں لیتا تو کبھی سر کھجاتا جس کی وجہ سے فلم میں میری توجہ اور یکسوئی ہر گز قائم نہ رہ سکی غصے میں،میں نے قسم کھائی کہ پھر کبھی فلم دیکھنے نہ جاؤں گا اور اگر آیا بھی تو اس کمبخت مرزا کو ساتھ نہ لاؤں گا۔

پانچ چھ گھنٹے سے پہلے آجاؤں گا اور اوپر کے درجے کی اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ یہاں بیٹھنے کے بعد مسلسل ناچ ناچ کر اپنے سے آگے بیٹھے شخص کو تنگ کروں گا۔مگر میری قسم بھی بہت جلد ٹوٹ گئی کہ جب اگلے ہفتے سے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھتا تو فلم دیکھنے کو جی چاہتا۔پھر سے مرزا کے پاس جا پہنچتا اور گفتگو کا آغاز وہیں سے ہو جاتا کہ کیا اگلی جمعرات سیمنا دیکھنے چلو گے۔

سوچیے اور بتایئے۔

سوال نمبر01: مصنف ایک ہفتہ پہلے سے ہی سینما کا پروگرام کیوں بناتا تھا؟

مصنف ایک ہفتہ پہلے سے ہی سینما کا پروگرام اس لیے بناتا تھا تا کہ ان کے دوست مرزا صاحب پہلے سے تیار رہیں اور اپنی مصروفیات کچھ اس انداز سے ترتیب دے لیں کہ فلم دیکھنے کے روز ان کے کسی کام کا کوئی ہرج نہ ہو۔

سوال نمبر02:مرزا صاحب کے انتظار سے تنگ آ کر مصنف نے کیا کیا؟

مرزا کے انتظار سے تنگ آکر مصنف نے مردانے کے سب کمرے گھومے،ہر کھڑکی سے جھانکا،مرزا صاحب کو آوازیں لگائیں۔پھر بھی ان کے آنے کا کچھ معلوم نہ ہوا تو وہ کمرے میں جا بیٹھے۔دس پندرہ منٹ سیٹیاں بجائیں۔جبکہ دس پندرہ منٹ تک پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصاویر بناتے رہے۔باہر نکل کر دیکھنے پر بھی جب مرزا کا نام و نشان نہ ملا تو مصنف نے واپس کمرے میں آکر اخبار پڑھنا شروع کردیا۔ہر کالم کے مطالعے کے بعد مرزا صاحب کو آواز دینے لگے۔

سوال نمبر03: سیمنا ہال میں پہنچ کر مصنف پر کیا گزری؟

سینما ہال پہنچنے پر مصنف ٹکٹ لینے کے بعد ہال میں داخل ہوا تو وہاں گھپ اندھیرے کا راج تھا۔رستہ، کرسی،دیوار اور آدمی میں کچھ فرق سجھائی نہ دے رہا تھا۔ایسے میں مصنف کا سر ان بالٹیوں سے جا ٹکرایا جو دیوار پر آگ بجھانے کے لیے لٹکائی گئی تھیں۔تھوڑی دیر بعد مصنف تاریکی میں جس کرسی کو خالی دھبہ سمجھ کر آگے بڑھا اس نشست پر کو ئی براجمان تھا۔جس کی گود میں وہ جا بیٹھے۔وہاں سے دھکے کھانے کے بعد وہ خالی کرسی تک پہنچے تو ان کے آگے موجود کرسی پر بیٹھا ہوا شخص کبھی انگڑائیاں لیتا تو کبھی سر کھجاتا جس کی وجہ سے فلم میں ان کی توجہ اور یکسوئی ہر گز قائم نہ رہ سکی۔

سوال نمبر04: غصے میں پطرس نے کیا قسم کھائی؟

غصے میں پطرس نے قسم کھائی کہ پھر کبھی فلم دیکھنے نہ آؤ گا اور اگر آیا بھی تو اس کمبخت مرزا کق ساتھ نہ لاؤ گا۔پانچ چھ گھنٹے سے پہلے آجاؤ گا اور اوپر کے درجے کی اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔

سوال نمبر05:پطرس کی قسم کا کیا انجام ہوا؟

پطرس کی قسم کا یہ انجام ہوا کہ اگلے ہفتے سے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھتے تو فلم دیکھنے کو جی چاہتا۔پھر سے مرزا کے پاس جا پہنچتے اور گفتگو کا آغاز وہیں سے ہو جاتا کہ کیا اگلی جمعرات سیمنا دیکھنے چلو گے۔