رباعی کی تعریف

0

رباعی کا ایک نام دو بیتی بھی ہے۔ بیت کے معنی ہیں شعر ،اس لیے دو بیتی کے معنی ہوئے دو شعروں والی نظم۔ عربی میں ربع کے معنی چار کے ہیں۔ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں۔ اس لئے چار مصرعوں والی نظم کا نام رباعی ہو گیا۔ رباعی قطعے سے مختلف ہوتی ہے۔ قطعے میں شعروں کی تعداد دو سے زیادہ ہو سکتی ہے لیکن رباعی میں صرف دو شعر یا چار مصرعے ہی ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ رباعی کے پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ رباعی کی خاص شناخت یہ ہے کہ اس کے لیے ایک خاص بحر مقرر ہے جب کہ قطعے کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں۔

رباعی کے سلسلے میں چند اور باتیں بھی اہم ہیں۔ اس میں جو مضمون بیان کیا جاۓ وہ اچھوتا ہو۔ جو خیال پیش کیا جاۓ وہ بلند ہو اور انداز بیان میں دلکشی پائی جاۓ۔ ضروری ہے کہ رباعی کا چوتھا یعنی آخری مصرع زیادہ پُر زور ہو اور محسوس ہو کہ رباعی کا پورا مضمون اس میں سمٹ آیا ہے۔

آغاز و ارتقا:

اردو شاعری کی دوسری اصناف کی طرح رباعیاں بھی شروں ہی سے کہی جانے لگی تھیں۔١٧٠٠ء میں ایک دکنی شاعر میر عبدلقادر نے اردو کی پہلی رباعی کہی۔شعرائے دہلی نے بھی اس طرف توجہ کی۔ چنانچہ میرؔ ، دردؔ ، سوداؔ، میر حسنؔ ،مصحفیؔ، جراتؔ ، انشاءؔ، مومنؔ ، غالبؔ وغیرہ تقریباً تمام شعرا نے رباعیاں کہیں۔

انیسؔ و دبیرؔ نے اس طرف خاص توجہ دی۔ یہ دونوں مرثیہ نگار مجلس میں مرثیہ پیش کرنے سے قبل سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے پہلے چند رباعیاں پیش کرتے تھے۔ اس سے رباعی کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ ابھی تک رباعی میں بالعموم حسن و عشق کا مضمون ہوتا تھا اب اخلاق اور پند و نصیحت نے روباعی میں جگہ پائی۔ ان بزرگوں نے خصوصیت کے ساتھ اہل بیت کی مدح میں روباعیاں کہیں۔ سانحہ کربلا پر اظہارِ غم کیا پھر اخلاق و نصیحت کے مضامین پیش کیے۔

رباعی کے فروغ میں خاص طور پر میر انیسؔ کی کوشش کو بڑا دخل ہے۔ ان کے مرثیوں کی طرح ان کی رباعیاں بھی بہت بلند پایا کی ہیں۔ انیسؔ کے بعد ان کی پیروی میں متعدد شعرا نے رباعیاں کہیں۔ .پیارے صاحب رشید نے ربا عی کی طرف خاص طور پر دھیان دیا۔ مغرب کے اثر سے شاعری میں مقصدیت پر زور دیا جانے لگا تو حالیؔ اور اکبرؔ نے رباعی کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا اور اس سے درس اخلاق کا کام لیا۔ حالیؔ کی اخلاقی رباعیاں بہت مقبول ہوئیں۔

اکبرؔ طنز نگار تھے اور طنز نگاری سے سماج کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے اصلاح کے نقطہ نظر سے طنزیہ رباعیاں کہہ کر اس صنف کو مزید وسعت دی۔ اسی دور میں جگت موہن لال رواںؔ انّاوی کی رباعیوں نے قدر شناسوں سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ اقبال نے بھی رباعی کے ذریعے اپنے مخصوص پیغام کو قارئین تک پہنچایا۔

دورِ حاضر کے شعرا اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ رباعی ایک مفید اور دلکش صنفِ سخن ہے اور اختصار اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ چنا نچہ ہمارے عہد کے شعرا نے اس صنفِ سخن کو بھی وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ ان میں یگانہ چنگیزی ، جوش ملیحآبادی ، امجد حیدرآبادی ، آسیؔ سکندر پوری ،شفیق جو نپوری اور فراق گورکھ پوری قابل ذکر ہیں۔رباعی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خوں نا بہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ مہلتِ کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے