Advertisement

اس نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر بند میں آٹھ مصرعے ھوں پہلے بند کے تمام مصرعوں کا ہم قافیہ یا ہم قافیہ و ہم ردیف ہونا ضروری ہے پہلے بند کے بعد کے ہر بند کے پہلے سات اور بعض صورتوں میں چھ مصرعے الگ قافیے میں ہوتے ہیں اور آخر کا ایک یا دو مصرعے پہلے بند کے قافیہ و ردیف کے پابند ہوتے ہیں۔ اس طرح:

Advertisement
اے چارہ گر آ چک کہ دمِ چارہ گری ہے
میں جان سے جاتا ہوں ، تجھے بے خبری ہے
کیوں پہلے ہی درماں سے یقین بے اثری ہے
اپنی سی تو کر دیکھ عبث نسخہ دری ہے
ہو جاؤں میں جاں بر تو تری نام دری ہے
یوں دعوی بے صرفہ تو بیہودہ سری ہے
گر ہم سے مریضوں کی دوا ہووے تو جانیں
بیمارِ محبّت کو شفا ہووے تو جانیں

یا

مثمن کی تعریف

یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ‘ آٹھ ہیں۔ اس میں آٹھ مصرعوں کے بند ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے آٹھوں مصرعے آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔بعد کے تمام بندوں میں ابتدائی سات مصرعوں کا قافیہ یکساں اور آٹھویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات پہلے چھ مصرعوں کا قافیہ ایک جیسا اور باقی کے دو مصرعوں کا قافیہ یکساں ہوتا ہے۔ مثال دیکھیے:

کل گھر میں وہ بیٹھے تھے سراسیمہ و حیراں
اس حال کے دیکھے سے ہوا حال پریشاں
نے کے سبب چپ نہ سکی پیش پنہاں
سمجھا میں کہ یوں بھی تو ہے مایوی و حرماں
انصاف کو رو، صبر کرے کب تلک انساں
ناچار کہا طعن سے میں نے کہ مری جاں
کس سوچ میں بیٹھے ہو، ذرا سر تو اٹھاؤ
گو دل نہیں ملتا ہے پر آنکھیں تو ملاؤ