نعت کی تعریف اور روایت

0

نعت کی تعریف اور روایت

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تعریف و توصیف کے ہیں۔نعت وہ منظوم کلام ہے جس میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اور آپ کی سیرت بیان کی جاتی ہے۔ نعت کے لیے کوئی ہیت مخصوص نہیں ہے۔

نعت کی روایت

عربی شاعری میں نعت گوئی کا باقاعدہ آغازصحابی رسول حضرت حسان بن ثابت سے ہوتا ہے۔ ان کے بعد بہت سے شعرا نے نعت گوئی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ حضرت کعب بن زہیر کا قصیدۂ لامیہ اور علامہ بوسیری کا قصیدہ بردہ عشق رسول سے سرشار نعت کا اعلی نمونہ ہے۔

عربی شاعری کے بعد فارسی اور ترکی زبان میں بھی نعت گوئی کا رواج عام ہوا۔ فارسی زبان میں عروضی ، انوری، سعدی، رومی، جامی ، عراقی وغیرہ نے بکثرت نعتیں لکھی ہیں۔ اردو شاعری کی ابتدا کے ساتھ ہی نعت گوئی کا آغاز ہوا۔ تمام بڑے شعرا نے کسی نہ کسی انداز میں حضرت محمد کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔

قدیم اردو شعرا کے کلام کا آغاز حمد ونعت ہی سے ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ پنڈت دیا شنکریم کی مثنوی گلزار نسیم کا آغاز بھی حمد ونعت سے ہوا ہے۔ دکنی ادب میں نعت کے زیادہ نمونے مثنوی کی شکل میں ملتے ہیں اور شمالی ہند میں نعت گوئی قصیدے سے وابستہ رہی ہے۔ بعد کے شعرا میں امیر مینائی نے بکثرت نعتیں کہی ہیں۔محسن کاکوروی کا پورا کلیات صرف نعتیہ کلام پر مبنی ہے۔ مسدس حالی کے نعتیہ اشعار بہت مقبول رہے ہیں۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
(حالی)

مولانا احمد رضا خاں کا نعتیہ کلام بھی بہت مقبول ہے

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے​
میرا دل بھی چمکادے چمکانے والے​
برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت​
بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے​
مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے​
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے​
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ​
مِرے چشمِ عالَم سے چھپ جانے والے​
میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو​
کہ رستے میں ہیں جا بجا تھانے والے​
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا​
ارے سَر کا موقع ہے او جانے والے​​
رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا​
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے​
اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی​
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے​
رضا نفس دشمن ہے دَم میں نہ آنا​
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے​

ان کے علاوہ علامہ اقبال کے یہاں خصوصیت سے عشق رسول کے جذبات کارفرما ہیں۔اقبال کے نعتیہ اشعار دیکھئے:

کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
ہے وہ دانائے سبل ختم الرسل ، مولائے کل
جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں ، وہی طاہا

اس ضمن میں حفیظ جالندھری کا کلام شاہنامہ اسلام بھی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔