پیروڈی کی تعریف

0

پیروڈی لفظ ‘پیروڈیا’ سے نکلا ہے۔جس کے معنی ہیں جوابی نغمہ۔یہ ایک ادبی طرز تخلیق ہے جس میں کسی نظم یا نثر کی نقل کرکے مزاح کا رنگ پیدا کیا جاتا ہے۔

اصطلاح میں اس سے وہ صنف ظرافت (نظم ونثر) مراد ہے جو کسی کے طرز نگارش کی طرز اور نقل میں لکھی گئی ہو اور اصل نگارش کے الفاظ و خیالات کو اس طرح بدل دیا جائے کہ مزاحیہ تاثرات پیدا ہو جائیں۔بعض اوقات صرف ایک لفظ بدل دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ایک حرف یا حرکت کی تبدیلی سے بھی پیروڈی ہوجاتی ہے۔پیروڈی کے لیے ضروری ہے کہ جس نظم میں نثر کی پیروڈی ہو وہ مشہور ومعروف ہو تاکہ قاری فوراً پہچان لے اور اس سے بھرپور مزا اٹھا سکے۔ پیروڈی کو مضحکہ خیز لفظی تصرف یا لفظی نقالی بھی کہہ سکتے ہیں۔

ابن انشا کی مشہور غزل ملاحظہ فرمائیں؀

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری،صحرا تیرا
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ ترا

ابن انشا کی اس غزل کی سعدیہ حریم نے بہت خوب پیروڈی کی ہے۔

کل رات نکلی تھی پولس شب بھر کیا پیچھا ترا
معلوم تھا سب کو مگر پکڑا نہ پر سایہ ترا
دھندہ کرے کوئی تو کیا ہر شئے پہ ہے قبضہ ترا
دفتر ترے، افسر ترے، موٹر تری، بنگلہ ترا
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص کرتا ہے طلب بھولا ہوا قرضہ ترا

اردو ادب میں ابن انشا کی تصنیف “اردو کی آخری کتاب” پیروڈی کی بہترین مثال ہے۔