نثر کی تعریف اور اقسام

0

نثر اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں وزن کا اہتمام نہ ہو (وزن شاعری کا وصف ہے)۔دوسرے ابہام بھی نہ ہو کیونکہ اگر ایک جملہ میں کئی معنی ہوں تو یہ نثر کا عیب ہے۔ نثر میں بات صاف طریقہ سے بیان کی جاتی ہے۔ نثر کے لئے ضروری ہے کہ اس میں حقیقت اور واقعیت ہو۔نثر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس سے وہ کام لیا جائے جو شعر میں آسانی سے ممکن نہ ہو۔نثر کی کئی اقسام ہیں۔

١۔ سادہ نثر:

سادہ نثر اس نثر کو کہتے ہیں جس میں رعایت و مناسبات وغیرہ نہ ہوں بلکہ عام فہم اور آسان الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ مثلاً فورٹ ولیم کالج کے رائٹر میرامن کی باغ و بہار کا یہ اقتباس دیکھئے:

“بادشاہ کی عمر چالیس برس ہو گئی۔ ایک دن شیش محل میں نماز ادا کر کر وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ ایک بارگی آئینہ کی طرف جو خیال کرتے ہیں تو ایک سفید بال موچھوں میں نظر آیا کہ مانند تار مقیش کے چمک رہا ہے۔ بادشاہ دیکھ کے آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر دل میں اپنے سوچ کیا کہ” افسوس! تو نے اتنی عمر ناحق برباد کی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیر و زبر کیا۔اتنا ملک کو جو لیا، اب تیرے کس کام آوے گا؟” آخر یہ سارا مال اسباب کوئی دوسرا اڑاوے گا تجھے تو پیغام موت کا آ چکا، اگر کوئی دن جئے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گئی”

٢۔ سلیس نثر:

لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے آسان نثر کو سلیس نثر کہتے ہیں اس میں رعایت لفظی کا استعمال بھی نہیں ہوتا۔ خطوط غالب اسکی بہترین مثال ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو؀

“پیر و مرشد! آپ کو میرے حال کی بھی کچھ خبر ہے۔ ضعف نہایت کو پہنچ گیا، بینائی میں فتور پڑا، حواس مختل ہوئے، جہاں تک ہو سکا احباب کی خدمت بجا لایا، اوراق اشعار لیٹے لیٹے دیکھتا تھا اور اصلاح دیتا تھا ،اب نہ آنکھ سے اچھی طرح سوجھے نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جائے”

٣ مقفیٰ نثر:

ایسی نثر جس میں وزن تو نہ ہو لیکن قافیے کا اہتمام کیا گیا ہو۔ کسی زمانے میں اس کا رواج تھا بلکہ ایسا جنون تھا کہ میر امن کی سادہ نثر کے مقابلے میں رجب علی بیگ سرور نے “فسانہ عجائب” نامی مکمل کتاب لکھ دی جو مقفیٰ نثر کی بہترین مثال ہے۔

٤۔ مسجع نثر:

ایسی نثر کو کہتے ہیں جس کے دو جملوں کے تمام الفاظ ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں اور آخر کے الفاظ بھی ہم قافیہ ہوں اور کبھی ردیف کا بھی استعمال ہو۔مثال:
“پونڈا پھیکا اتنا برا کہ جس کی برائی بیان سے باہر ہے، پونڈا میٹھا ایسا بھلا کہ اس کی بنائی گمان سے بڑھ کر ہے۔” (دریائے لطافت، سید انشاء)

اس مثال میں دو جملے ہیں۔ پہلے جملے میں “پونڈا پھینکا اتنا برا” اور دوسرے میں “پونڈا میٹھا ایسا بھلا” ہموزن جب کہ “جس کی برائی بیان سے باہر” اور “اس کی بھلائی گمان سے بڑھ کر” ہم وزن ہیں۔ برائی، بھلائی، بیان، گمان، باہر، بڑھ کر ہم قافیہ الفاظ ہیں۔

٥۔ رنگین نثر:

ایسی نثر کو کہتے ہیں جس میں صنائع لفظی و معنوی سے کام لیا گیا ہو۔ مثلاً :

“بندہ حرارت قلب کے عارضے سے حیران و ششدر رہتا ہی تھا، اب ضعف و دماغ کی بیماری نے اور بھی عاجز اور زچ کر دیا ہے۔ ہر دم یہی سوچ اور منصوبہ آتا تھا کہ کدھر جاؤں اور کون ایسی چال چلوں کہ یہ عارضہ بڑھنے نہ پائے۔ بارے ان دنوں حکیم شاہ رخ کی تعریف بہت سنی تھی کہ ان کے نزدیک بادشاہ اور وزیر اور فقیر مسکین اور امیر فیل برابر ہیں۔ مریضوں کی خبر گیری کے واسطے بارہ دری میں شطرنجی بچھائے بیٹھے رہتے ہیں”

اس نمونے میں بہت سارے الفاظ شطرنج کے مناسبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً قلب، زچ، منصوبہ، کدھر جاؤں، چال چلوں، بڑھنے نہ پائے، بادشاہ، وزیر امیر،فیل نشین وغیرہ۔یہ صنائع بدائع کا استعمال ہی اسے خوبصورت اور رنگین بناتا ہے۔