تذکرہ نگاری کی تعریف

0

تذکرہ ایک مرکب صنف ادب ہے۔ اصطلاحاً اس لفظ کا اطلاق اس کتاب پر ہوتا ہے جس میں شعراء کے مختصر احوال اور ان کا منتخب کلام درج کیا گیا ہو علاوہ ازیں شعراء کے کلام پر مختصر الفاظ میں تنقیدی رائے بھی دی گئی ہو۔

سب سے پہلے شعراء کے حالات میں جو تذکرہ لکھا گیا وہ سرزمین ملتان میں “لبالب الباب” کے نام سے عوفی نے لکھا۔یہ روایت آئندہ زمانے میں بھی ایران سے زیادہ ہندوستان میں برقرار رہی اور عہد مغلیہ میں زبان فارسی میں کچھ اہم تذکرے لکھے گئے۔”طبقات اکبری” اور “منتخب التواریخ” وغیرہ میں معاصرین شعراء کے مستند ترین حالات ملتے ہیں۔ تاریخوں کے علاوہ دوسرے فنون میں کتابیں بھی بحثیت تذکرہ اہمیت رکھتی ہیں اور ان میں “ہفت اقلیم” کا نام سرفہرست ہے۔

آخری مغل دور میں آرزو اور خوشگو کے مستند تذکرے ملتے ہیں۔ اردو ادب کی ابتداء فارسی کے علماء اور شعراء کی اور اردو تذکرہ نگاری بھی فارسی تذکرہ نویسوں نے شروع کی یا ان کے پیروکار نے اس کو فروغ دیا۔چنانچہ عہد مغلیہ کے آخری زمانے میں ہمیں ایسے تذکرے ملتے ہیں جن میں اردو اور فارسی زبانوں کے شاعروں کے حالات موجود ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا عہد بھی آیا جب ایک ہی تذکرہ نگار نے فارسی اور اردو شعراء کے الگ الگ تذکرے لکھے اور یہی وہ زمانہ بھی تھا جب مختلف مصنفین نے صرف اردو شعراء کے تذکرے لکھے۔ جن میں سرفہرست اردو زبان کا پہلا تذکرہ “تذکرہ گلشن ہند” (مرزا علی لطف)، “تذکرہ شعرائے اردو” (میر حسن)، “تذکرہ گلشن بے خار”(مصطفی خان شیفتہ)، “انتخاب یادگار”(امیر مینائی)، “انتخاب دواوین”( امام بخش صہبائی)، “آب حیات و سخن دان فارس”(محمد حسین آزاد)، “تذکرۃ معاصرین و سخن و شعراء” (عبدالغفور نساخ) “تذکرہ ماہ و سال و تذکرہ معاصرین” (مالک رام) “مجموعۂ نغز” (قدرت اللہ قاسم) “گل رعنا” (مولوی عبدالحی) اور فارسی میں میر تقی میر کا “نکات الشعراء” فتح گردیزی کا “تذکرہ ریختہ گویاں” اور قیام الدین قائم کا “مخزن نکات” محمد ابراہیم خلیل، پچھمی نرائن شفیق، قدرت اللہ شوق اور غلام ہمدانی مصحفی وغیرہ کے تذکرے بھی کافی مقبول ہیں۔

اصولی طور پر تذکرہ ذکر کے معنی سے مربوط ہے، عربی سے اردو میں مروج ہونے والا یہ لفظ مجرب حیثیت سے اردو میں رواج پایا اور فارسی کے زیر اثر اردو ادب میں اس لفظ کو صنف کی حیثیت حاصل ہوئی۔عام انداز میں تذکرہ بمعنی ذکر کے مروج ہے لیکن اصطلاحی اعتبار سے تذکرہ متعدد اشخاص کے حالات اور کارناموں کو ایک کتاب میں جمع کرنے کی شہادت دیتا ہے۔ یعنی تذکرہ ایک ایسی صنف ہے جس میں فن کے جلیل القدر اصحاب کی سوانح اور انفرادی خصوصیات کو واضح کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے تذکرہ کتاب کا محتاج ہوتا ہے یعنی جب تک کہ اہم شخصیتوں کو مربوط نہ کیا جائے اس کی حیثیت تذکرہ نہ ہوگی۔

عام طور پر ایسی تمام تحریریں تذکرہ کے ضمن میں آئیں گی جن میں ایک سے زائد شخصیات کے حالات اور کارنامے اکٹھا کرکے کتابی شکل میں جمع کر دیے گئے ہوں۔ اس عمل کیلئے لازمی نہیں کہ وہ شخصیتیں صرف ادبی حیثیت کی حامل ہوں بلکہ مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی غرض کی ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے حالات اور کارنامے کسی ایک کتاب میں جمع کر دینا “تذکرہ” کہلاتا ہے۔