رپورتاژ کا آغاز و ارتقاء

0

رپورتاژ ہمارے ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس نے ترقی پسند تحریک کے عروج ساتھ ترقی کی۔ یہ وہی صنف ہے جسے انگریزی میں “رپورٹ ایج” ، کہتے ہیں۔ رپورتاژ اسی لفظ کا فرانسیسی تلفظ ہے۔

کسی واقعے کی خبر یا رپورٹ اس طرح تیار کی جائے کہ اس میں افسانے کا انداز پیدا ہو جائے یا اس میں مصنف کی شخصیت جھلک اٹھے تو یہی رپورتاژ ہے۔ اسی لیے سردار جعفری نے اسے صحافت اور افسانے کی درمیانی کڑی کہاہے۔ بقول پروفیسر احتشام حسین “رپورتاژ کو ہم واقعات کی ادبی محاکاتی رپورٹ کہہ سکتے ہیں۔”

رپورٹ عام طور پر ایک روکھی پھیکی شے ہے جسے پڑھنا یا سننا ایک صبرآزما مرحلہ ہوتا ہے۔ اسے دلچسپ اور خوشگوار بنانے کے لیے اہلِ قلم نے اس میں افسانے کا رنگ بھرا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی روداد حمید اختر نے ادبی زبان اور محاکاتی انداز میں پیش کرکے اردو داں حلقے کو اس صنف سے روشناس کیا۔ اس لیے ہماری زبان میں وہی اس کے موجد کہے جاتے ہیں۔

آغاز و ارتقاء

ہمارے ادب میں رپورتاژ ایک نئی نثری صنف ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی رودادیں کچھ ایسے افسانوی انداز میں لکھی گئیں کہ جلسہ گاہ، شرکا کی شخصیت، ان کا سفر اور جلسوں کی کارروائی سب چیزوں کی ایک تصویر پیش نظر ہوجائے۔ مقصد یہ کہ رپورٹ میں خشکی اور بے لطفی باقی نہ رہے۔ اس طرح اردو ادب میں رپورتاژ کا آغاز ہوا لیکن اس سے بہت پہلے کی ایسے تصانیف موجود ہیں جن میں رپورتاژ کی خصوصیات کسی نہ کسی شکل میں مل جاتی ہیں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے “دہلی کا ایک یاد گار مشاعرہ” کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ مشاعرے کی ایک جیتی جاتی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اور اسے رپوتاژ کی حدوں میں داخل کر دیتی ہے لیکن یہ ایک فرضی اور خیالی مشاعرے کی تصویر ہے جب کہ ضروری ہے کہ رپورتاژ کی بنیاد کسی اصل واقع پر ہو۔ اس لئے اسے رپوتاژ نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے دو لاجواب خاکے لکھے، ایک مولوی نزیر احمد کا اور دوسرا مولوی وحید الدین سلیم کا۔ ان دونوں میں رپورتاژ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

جارج پنجم کے جشنِ تاج پوشی کے موقع پر کلکتہ میں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔ مولانا ابو کلام آزاد نے اس کی روداد لکھی جو “الپنچ” میں 5 جولائی 1902ء کو شائع ہوئی۔ اس کا انداز افسانوی ہے اور یہ رفتار کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اردو میں کئی آپ بیتیاں لکھی گئی ہیں جن میں رپوتاژ کے عناصر جابجا نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں میر تقی میر کی “ذکر میر” سید علی رضا کا “اعمال نامہ” حکیم احمد شجاع کا “خون بہا”، جوش کی “یادوں کی بارات” قابل ذکر ہیں۔ مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی اور منٹو کے خاکے بھی رپورتاژ کی متعدد خصوصیات بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کچھ سفرنامے ہیں جن میں رپورتاژ کے عناصر نظر آ جاتے ہیں۔ لیکن جن شہپاروں کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ان میں کسی کو بھی مکمل رپورتاژ نہیں کہا جا سکتا۔

ترقی پسند تحریک کو جب ہمارے ملک میں فروغ حاصل ہوا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی جلسے باقاعدگی سے منعقد ہونے لگے تو ان جلسوں کی رپورٹیں تیار کرنی پڑیں۔ عوام کی خشکی اور بے کیفی کو دور کرنے کے لئے دلکش افسانوی اور محاکاتی انداز اختیار کیا گیا۔ یہیں سے باقاعدہ طور پر رپورتاژ کا آغاز ہوا۔ اس کا سہرا حمید اختر کے سر ہے اور اسے مقبول عام بنانے میں “نظام” بمبئی کی کوشش نا قابل فراموش ہے۔

1940ء میں سجاد ظہیر نے “یادیں” پیش کرکے اس کو استحکام بخشا۔ پھر 1945ء میں منعقد ہونے والی انجمن میں انجمن کی کل ہند کانفرنس کی رپورٹ لکھی جو 1947ء میں “پودے” کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد اس صنف کے قدم پوری طرح جم گے۔ قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، ممتاز مفتی، شاہد احمد دہلوی، فکر تونسوی اور ابراہیم جلیس جیسے بلند پایہ فنکاروں کے ہاتھوں اس صنف کو بہت فروغ حاصل ہوا۔