Back to: اردو کی شعری و نثری اصناف
Advertisement
Advertisement
ایسا کلام یاایسی نظم خواہ کسی بھی ہیئت میں ہو جس میں کسی کی مخالفت میں اس پر طنز کیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے اسے ہجو کہتے ہیں۔اردو ادب میں میر کی ہجویات اور سودا کی ہجویات مشہور ہیں۔پہلے “ہجو” کو قصیدے کے ضمن میں گردانہ جاتا تھا مگر اب یہ اپنے لئے ایک علیحدہ شناخت بنا چکی ہے۔آج کل سیاسی جلسوں میں ہجو گو شعراء کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ مرزا محمد رفیع سودا نے میر تقی میر کی ہجو میں جو اشعار کہے ہیں وہ کامیاب اور فنکارانہ طنز کی بہترین مثال ہے۔ نو اشعار کی اس ہجو میں جو واقعہ ہوا ہے اس کا انحصار آخری شعر پر ہے
Advertisement
ہر ورق پر ہے میر کی اصلاح لوگ کہتے ہیں سہو کاتب ہے |
اس میں فنی تعمیر اتنی منظم اور اشعار ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہیں کہ آخری شعر کا دار یقینی ہو جاتا ہے۔ بغیر سخت الفاظ استعمال کیے ایسی ہجو خود سودا نے دوسری نہیں کہی۔
Advertisement
Advertisement