نظم پہاڑ اور گلہری، تشریح، سوالات و جوابات

0

🔘علامہ اقبال کی حالات زندگی:

  • اصل نام : ڈاکٹر اقبال
  • تخلص : اقبال
  • والد کا نام : شیخ نور محمد
  • والدہ کا نام :امام بی بی
  • پیدائش : 1877ء پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں۔
  • وفات : 1938ء لاہور میں۔
  • خطاب : ملک الشعراء، سر، شاعر مشرق، علامہ، شاعر خودی۔
  • اقبال کا تعلق کشمیری پنڈتوں سے ہے۔
  • اردو شاعری کی دنیا میں جو عظمت اور عزت اقبال کو ملی ہے وہ اب تک کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہو سکی۔ علامہ اقبال کے خیالات زبردست ہیں۔ اقبال نے خودی کا فلسفہ دے کر اردو دنیا کو قیمتی دولت سے سرفراز کیا۔ اقبال نے ڈاکٹریٹ کے علاوہ بیرسٹری کی سند بھی حاصل کی تھی۔ علامہ اقبال کے ذریعہ ملتِ اسلامیہ کے لیے جو شاعری وجود میں آئی ہے اس نے تمام نظم نگاروں میں اقبال کو اعلیٰ نظم نگار بنا دیا۔

اقبال نے بچوں کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر سبق آموز نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی شاعری اردو ادب کے لیے ایک نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ عظیم شاعر 1938ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ ان کی مشہور نظمیں بانگ درا، بال جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغان حجاز میں شامل ہیں۔

⭕️ نظم پہاڑ اور گلہری کے اشعار کی تشریح:

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح : اقبال کہتے ہیں کہ ایک پہاڑ ایک گلہری سے کہتا تھا کہ اے! گلہری اگر تجھ میں ذرا سی بھی شرم ہے تو – توٗ پانی میں جاکر ڈوب مر۔

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور کیا کہنا

تشریح: اے گلہری…! ایک تو توٗ چھوٹی سی چیز ہے، اور پھر تو خود پر اتنا غرور کرتی ہے۔ مجھے تیری عقل، تیری سمجھداری اور تیری سوچ پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے، تجھے کچھ کہوں تو کیا کہوں۔

خدا کی شان ہے ناچیز، چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں، یوں با تمیز بن بیٹھیں

تشریح : اللہ کی شان تو دیکھوں، جو بہت معمولی چیز تھی، اب وہ خود کو بہت بڑی چیز سمجھتی ہیں۔ یعنی جس میں کل تک ذرا سا بھی شعور نہیں تھا۔ وہ آج اپنے آپ کو تمیزدار بن بیٹھیں ہیں۔

تیری بساط کیا ہے میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آنکھ بان کے آگے

تشریح : اے گلہری….! میری آن بان شان کے آگے تیری بساط اور حیثیت ہی کیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ میری آنکھوں بان شان کے آگے یہ زمین بھی بہت نیچی دکھائی دیتی ہے۔

جو بات مجھ میں ہیں، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں

تشریح : اے گلہری…! مجھ میں جو بات ہے وہ بات تجھ کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہوں، میرے سامنے تجھ جیسا چھوٹا سا غریب جانور کیا حیثیت رکھتا ہے۔

کہا یہ سن کر گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح : اقبال کہتے ہیں کہ پہاڑ کی باتیں سن کر گلہری کہنے لگی کے ذرا اپنے منہ کو سنبھال! تیری یہ باتیں کچی ہیں، تو ان باتوں کو اپنے دل سے نکال دے۔

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر میری طرح چھوٹا

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! اگر میں تیری طرح بڑی نہیں ہوں تو مجھے اس کی پروا بھی نہیں ہے۔ تو بھی تو آخر میری طرح چھوٹا نہیں ہے۔

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اسکی حکمت ہے

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! تو غور سے دیکھ، اس دنیا کی ہر چیز سے خدا کی قدرت ظاہر ہوتی ہے۔ اس نے کوئی چیز بڑی بنائی ہے اور کوئی چیز چھوٹی بنائی ہے، یہ اس کی کاریگری ہے۔

بڑا جہاں میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا اس نے

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! اگر تجھے خدا نے بڑا بنا دیا تو کیا ہوا؟ اسی خدا نے مجھے بھی درخت پر چڑھنا سکھا دیا۔ جب کہ تو درخت پر چڑھ نہیں سکتا۔

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! تجھ میں ایک قدم بھی اٹھانے کی طاقت نہیں ہے، بس تجھ میں نام کی بڑائی ہے ، ورنہ اس کے علاوہ اور کیا خوبی ہے تجھ میں۔؟

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! اگر تو بڑا بنتا ہے تو ذرا میری طرح ہنر دکھا، اور یہ چھوٹی سی چھالیا ہے اسے توڑ کر دکھا، تو میں تجھ کو مان جاؤں گی۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق نظم سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اے پہاڑ! سچائی تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز نکمی نہیں ہے اور قدرت نے اپنے کارخانے میں جو بھی چیز بنائی ہے ان میں کوئی چیز بری نہیں ہے۔

⭕️ غور کیجئے:

اقبال کی نطم “پہاڑ اور گلہری” سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز اپنے قد اور بناوٹ سے اہم نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے عمل سے اپنی حیثیت بناتی ہے۔

⭕️ سوالات و جوابات:

سوال 1: پہاڑ نے گلہری سے ڈوب مرنے کو کیوں کہا؟

جواب : پہاڑ نے گلہری سے اس لیے ڈوب مرنے کو کہا کہ تو ذرا سی چیز ہے، اگر تجھ میں ذرا بھی شرم ہے تو پانی میں ڈوب مر۔

سوال 2: گلہری نے پہاڑ کو کیا جواب دیا؟

جواب : گلہری نے پہاڑ کو یہ جواب دیا کہ ذرا منہ سنبھال کر بات کر، تیری ساری باتیں کچی اور غلط ہیں، تو ان کو اپنے دل سے نکال دے۔

سوال 3: پہاڑ نے اپنی بڑائی میں کیا کہا؟

جواب : پہاڑ نے اپنی بڑائی میں یہ کہا کہ میری شان کے آگے تیری کیا حیثیت ہے۔ یہ زمین بھی میری آن بان کے آگے بہت نیچی ہے۔

سوال 4 : کن باتوں سے خدا کی قدرت کا پتہ چلتا ہے؟

جواب : خدا نے کوئی چیز چھوٹی اور کوئی چیز بڑی بنائی ہے۔ ان باتوں سے خدا کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔

سوال 5: گلہری ایسا کون سا کام کر سکتی ہے جو پہاڑ کے بس کا نہیں ہے؟

جواب : پہاڑ، گلہری کی طرح درخت پر چڑھ نہیں سکتا اور چھالیا توڑ نہیں سکتا۔

⭕️ عملی کام:

ایک جیسی آواز پر ختم ہونے الفاظ کو “قافیہ” کہتے ہیں۔
مثال:

غرور _ شعور
چیز _ تمیز
آن _ بان _ شان
نصیب _ غریب
سنبھال _ نکال
قدرت _ حکمت
زمانے _ کارخانے
تھا _ جا
تجھے _ مجھے
بنا _ سکھا
تحریر ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی⭕