رباعیات میر انیس، تشریح، سوالات و جوابات

0

رباعی 1 :

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب میں شامل ہے اور سبق “رباعیات” سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام میر انیس ہے۔

تشریح: میر انیس اپنی اس رباعی میں کہتے ہیں کہ اللہ دنیا میں جس شخص کو خاص اور بڑا رتبہ دیتا ہے وہ شخص خود کو اخلاقی طور پر کمتر اور معمولی ظاہر کرتا ہے مگر جو لوگ دماغ سے خالی ہوتے ہیں، وہ خود اپنے ہی منھ سے اپنی تعریف کرتے ہیں، جس طرح خالی برتن آواز کرتے ہیں۔
یعنی جو برتن خالی ہوتا ہے اس سے زیادہ آواز نکلتی ہے، اسی طرح جو دماغ سے خالی ہوتا ہے وہ خود کو بہت کچھ ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے۔

رباعی 2 :

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آۓ وہ جوانی دیکھی

حوالہ: یہ نظم ہماری کتاب میں شامل ہے اور سبق “رباعیات” سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام میر انیس ہے۔

میر انیس اپنیاس رباعی میں کہتے ہیں کہ یہ دنیا ایک عجیب مسافر خانہ ہے جو کبھی بھی مٹ سکتا ہے۔ یہاں ہر چیز آتی ہے اور آکر چلی جاتی ہے۔ یعنی پیدا ہوتی ہے اور ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ انسان پر جو بڑھاپا آتا ہے وہ ایسی چیز ہے جو آنے کے بعد جاتی نہیں ہے اور جوانی ایسی چیز ہے جو جانے کے بعد آتی نہیں ہے، اس لیے ہمیں زندگی پر غرور نہیں کرنا چاہیے۔

⭕️ رباعی کی تعریف۔

رباعی شاعری کی سب سے چھوٹی صنف ہے۔ یہ پرانے دور میں بہت مقبول تھی اور آج بھی کچھ شاعر رباعی لکھتے ہیں۔عربی زبان میں ایک لفظ اربع ہے جس کا مطلب “چار” ہے۔ اسی سے لفظ “رباعی” بنا ہے۔ یعنی چار مصروں کی نظم، یہ اردو کی سب سے چھوٹی نظم کی قسم ہے جو صرف چار مصرعوں کی ہوتی ہے۔

اس میں پہلا، دوسرا، اور چوتھا مصرعہ قافیہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور ضرورت کے مطابق ردیف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ مگر تیسرا مصرعہ قافیہ سے خالی ہوتا ہے۔رباعی کے چاروں مصرعے ایک خاص وزن میں لکھیں جاتے ہیں۔اس سے الگ کسی اور وزن میں رباعی لکھیں جائیں تو وہ رباعی نہیں ہوگی۔ ایک رباعی میں صرف ایک ہی مضمون یا خیال پیش کیا جاتا ہے زندگی اور دنیا کے کسی بھی طرح کے مضمون یا خیال پر رباعی لکھی جا سکتی ہے۔

⭕️ سوالات و جوابات:

سوال 1 : دل میں فروتنی کو جگہ کون دیتا ہے؟

جواب : اللہ جس شخص کو دنیا میں خاص مرتبہ عطا کرتا ہے وہی شخص اپنے دل میں فروتنی کو جگہ دیتا ہے۔

سوال 2 : اپنی ثنا آپ کون کرتا ہے؟

جواب : جس شخص کا دماغ خالی ہوتا ہے وہ خود اپنی تعریف کرتا ہے۔

سوال 3 : خالی ظرف کے صدا دینے سے کیا مراد ہے؟

جواب : خالی ظرف کے صدا دینے سے مراد ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں ہوتے وہ خود کو بہت کچھ ثابت کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔

سوال 4 : شاعر نے دنیا کو سراۓ فانی کیوں کہا ہے؟

جواب : شاعر نے دنیا کو سراۓ فانی اس لیے کہا ہے کہ یہاں ہر چیز آنی جانی ہے، یعنی ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔

سوال 5 : بڑھاپا اور جوانی کے لیے شاعر نے کیا فرق بتایا ہے؟

جواب : بڑھاپا اور جوانی کے لیے شاعر نے یہ فرق بتایا ہے کہ بڑھاپا آنے کے بعد جاتا نہیں ہے اور جوانی جانے کے بعد واپس نہیں آتی۔

⭕️ عملی کام۔

انیس کے علاوہ دوسرے رباعی گو شعرا کی رباعیاں لکھو۔

غفلت میں گزاری زندگانی ہم نے
یاروں کی کوئی بات نہ مانی ہم نے
ہے وقت تو ایک نعمت عظمٰی آزاد
قدر اس کی مگر کبھی نہ جانی ہم نے
(فضل حق آزاد)
کلفت ہو میسر اسے الفت سمجھو
اس دور میں تکلیف کو راحت سمجھو
اے ہم نفسوں پوچھتے کیا ہو احوال
جو دم بھی گزر جاۓ غنیمت سمجھو
(یگانہ چنگیزی)
کھوتے ہیں اگر جان تو کھو لینے دے
ایسے میں جو ہو جائے وہ ہو لینے دے
ایک عمر پڑی ہیں صبر بھی کر لیں گے
اس وقت تو جی بھر کے رو لینے دے
فراق گورکھ پوری

⭕️ میر انیس کی حالات زندگی تحریر کرو۔

  • اصل نام : میر ببر علی
  • تخلص : انیس
  • پیدائش : 1802ء میں فیض آباد میں پیدا ہوے۔
  • وفات : 1874ء میں ان کا انتقال ہوا۔

میر انیس1802ء میں فیض آباد میں پیدا ہوے۔ ان کا تخلص انیس تھا۔ ادبی دنیا میں میر انیس کے نام سے مشہور ہوئے۔ انیس نے شاعری کی کئی اصناف میں شاعری کی ہے، مگر سب سے زیادہ شہرت مرثیہ نگاری میں حاصل ہوئی۔ انیس نے کچھ بہترین رباعیات بھی لکھی ہیں۔ ان کی شاعری میں زبان کی صفائی اور معنویت کے ساتھ ساتھ خیالات کی بلندی بھی صاف نظر آتی ہے۔ انہوں نے منظر نگاری اور جزبات نگاری میں بھی بہت قابلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ خصوصاً مرثیہ نگاری میں انہوں نے جو شہرت و مقبولیت حاصل کی ہے وہ بے مثال ہے۔ 1874ء میں ان کا انتقال ہوا۔

تحریر 🔘ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی🔘