لوک کہانی/عوامی کہانی، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 09: لوک کہانی
  • مصف کا نام: گریگور یولو پینز فو آنتے
  • سبق کا نام: خدا کے نام خط

خلاصہ سبق:

سبق “خدا کے نام خط” میں مصنف نے خدا پر پختہ ایمان کے دلچسب قصے کو بیان کیا ہے۔ ایک وادی میں ایک مکان تھا جس کے مکینوں نے مٹر اور چنے کے کھیت اگا رکھے تھے۔ ان کھیتوں میں بہت عمدہ فصل اگی ہوئی تھی مگر اسے بارش کی سخت ضرورت تھی۔ لین شو اس کھیت کا مالک تھا جو صبح سے بارش برسنے کا منتظر تھا اور آخر اس کی پیشن گوئی کے مطابق بارش برسنے بھی لگی۔

لین شو خوشی خوشی کھیتوں میں نکل گیا اور بارش سے لطف اندوز ہونے لگا۔بارش کو دیکھنے کے بعد وہ گگر آیاتو خوشی سے کہنے لگا کہ آسمان سے برسنے والی بارش نہیں بلکہ سکے ہیں کیونکہ اس بارش نے فصل کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔وہ اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ بارش کے ساتھ تیز آندھی اور ژالہ باری بھی برسنے لگی۔

یہ اولے چاندی کے گول ڈلوں سے مشابہہ تھے بہت دیر تک اولے برستے رہے جس سے زمین نے سفید برف کی چادر اوڑھ لی۔ درختوں کے تمام پتے گر گئے اور کھیت تباہ ہو گئے۔ لین شو کہنے لگا کہ اگر یہی کھیتوں پر ٹڈی دل حملہ آور ہوتی تو کچھ نہ کچھ بچ جاتا مگر اب سب تباہ ہو چکا ہے اور سال ہمیں فاقے پہ فاقے کرنے ہوں گے۔

تمام لوگ امید ہار گئے مگر لین شو نے سب کو ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا ہے۔ کیونکہ کہ لین شو کا عقیدہ تھا کہ سب کا پالن ہار ایک ذات ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں کی بات سے بھی واقف ہے۔لین شو جو کچھ پڑھنا لکھنا جانتا تھا اس نے خدا کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا اور خدا کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ یا ربی میری فصل تباہ ہو چکی ہے اور مجھ پر فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔مجھے ایک سو روپے کی ضرورت ہے تا کہ میں بوائی کرسکوں اور نئی فصل اگانے کے ساتھ اس دفعہ فاقوں سے بھی نہ مروں۔

خط کے پتے پر اس نے تحریر کیا کہ یہ خظ خدا کو ملے۔ خط پوسٹ کر دیا گیا۔ ڈاک کی چھانٹ کے دوران جب یہ خط ایک ملازم کو ملا تو وہ ہنسنے لگا۔ اس نے یہ خط اپنے پوسٹ ماسٹر کو دیا اس سے قبل انھوں نے ایسے پتے کا خط نہ دیکھا تھا۔ پوسٹ آفیسر ایک خوش مزاج انسان تھا مگر خط پر موجود پتہ دیکھ کر وہ بھی ہنسنے لگا۔

آخر اس نے وہ خط کھولنے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ واہ کیا پختہ ایمان والا شخص ہے کاش مجھے بھی ایسا کامل یقین والا ایمان نصیب ہوتا۔خط چاک کرنے پر جب پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا مطالبہ پڑھا تو اس نے اپنے ماتحتوں سے تمام ماجرا بیان کیا اور چندہ جمع کرکے کہ لین شو کی مدد کرنے کا ارادہ کیا۔ تمام رقم ایک سو روپیہ تو نہ ہو سکی مگر جتںی رقم تھی اسے لین شو کے پتے پر ارسال کردیا گیا۔

لین شو نے جب رقم گنی تو وہ ستر روپے نکلی وہ بڑبڑا کر کہنے لگا کہ میرا مطالبہ نہ تو زیادہ تھا اور نہ ہی خدا کے خزانوں میں کمی ہے اور خدا سے ایسی غلطی بھی ہر گز نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ تو اس سے زیادہ بھی دے سکتا تھا۔ اس نے ڈاک خانے جا کر اس پتے سے مزید ڈاک آنے کا دریافت کیااور جواب نہ پا کر دوبارہ خط لکھنے کا ارادہ کیا۔

اس نے بہت سوچ کر خط لکھا اور اسے ارسال کر دیا یہ خط جیسے ہی پوسٹ ماسٹر نے کھولا تو ا سمیں لکھا تھا کہ میں نے جو رقم طلب کی وہ صرف ستر روپے ہے اور مجھے بقایا رقم ارسال کر دی جائے کہ مجھے اس کی ضرورت ہے مگر یہ رقم ڈاک خانے کے پتے کے ذریعے نہ بھیجں کہ یہاں کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔ یوں مصنف نے ایک پختہ یقین کی کہانی کو خوبصورت رنگ میں پیش کیا ہے۔

⭕️ مندرجہ ذیل اقتباس کی تشریح کیجئے۔

اقتباس 1:

“پھر اس نے بڑے اطمینان سے یہ بھی کہا کہ غلّے کے کھیت اور مٹر کے نئے نئے کھلے ہوئے پھول، بارش کی چادریں اوڑھ کر بہت خوش ہیں۔ ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ ایک بارگی تند و تیز ہوا اٹھی پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ اولے واقعی چاندی کے گول گول ڈلوں سے مشابہ تھے۔ بچوں نے یہ دیکھا تو لپک کر اندر سے باہر آگئے اور انہیں چننے میں جٹ گئے۔ بچے خوش تھے لیکن ان کا باپ فکر مند ہوکر کہنے لگا، اب تو معاملہ بگڑنے لگا ہے، لیکن پھر بھی مجھے امید امید ہے کہ سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔

حوالہ: یہ خط اسپینی لوک کہانی کا ترجمہ “خدا کے نام خط” سے لیا گیا ہے۔

تشریح: اس کہانی کے ایک اہم شخص لین شو کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اس نے بہت خوشی اور اطمینان سے یہ کہا کہ اناج کے سبھی کھیت مسکرا رہے ہیں۔ مٹر کے نئے نئے پھول کھل رہے ہیں اور بارش کی چادر اوڑھ کر وہ اور زیادہ اچھے لگ رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اچانک بہت تیز آندھی اٹھیں اور زور دار بارش ہونے لگی۔ بارش کے ساتھ اولے بھی برسنے لگے ہیں جو چاندی کے چمکتے ہوئے گول ڈلوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ گھر کے اندر سے بچوں نے نظارہ دیکھا تو وہ باہر آکر مزہ لینے لگے اور ان کو اکھٹا کرنے لگے۔ سب بچّے بہت خوش نظر آ رہے تھے مگر ان کا باپ لین شو فکر مندی میں ڈوب رہا تھا، وہ کہنے لگا لگا کہ ایسی بارش سے حالات بہت خراب ہو رہے ہیں، مگر میں پھر بھی یہ امید کرتا ہوں کہ سب کچھ بہت جلدی اچھا ہوجائے گا۔

⭕️ غور کیجئے۔

انسان اپنی زندگی میں کئی کام کرتا ہے۔ کبھی فائدہ ہوتا ہے، کبھی نقصان ہوتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نقصان ہونے پر آدمی ہمت ہار جاتا ہے۔ یہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ آدمی کو کسی بھی حال میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ لگاتار کوشش میں مصروف رہنا چاہئے اور ہمیشہ خدا سے نیک امید رکھنا چاہئے۔

⭕️ سوالات و جوابات

سوال 1 : لین شو نے بی بی سے کیا قیاس آرائی کی؟

جواب : لین شو نے بی بی سے یہ قیاس آرائی کی کہ آج بارش ہونی چاہیے۔

سوال 2 : لین شو بارش میں کھیتوں کی طرف کیوں گیا؟

جواب : لین شو بارش میں کھیتوں کی طرف اس لیے گیا کہ اس کا مقصد تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ کو اپنے تن من میں دوڑتا ہوا محسوس کرے۔

سوال 3 : ژالہ باری سے کیا نقصانات ہوۓ؟

جواب : ژالہ باری سے درختوں پر ایک پتہ بھی نہ رہا۔ غلے کے کھیتوں کا ستیاناس ہو گیا۔ مٹر کی بیلیں اور پودوں کے تازہ پھول ٹوٹ کر بکھر گۓ۔

سوال 4 : لین شو نے خدا کے نام خط میں کیا لکھا؟

جواب : لین شو نے خدا کے نام خط میں یہ لکھا کہ:
یا ربی! اگر تونے میری مدد نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کا شکار ہو جائیں گا۔ اس وقت ایک سو روپیوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ میں کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکو اور نئی فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکوں۔ کیونکہ ژالہ باری نے ساری فصل تباہ کردی ہے۔

سوال 5 : لین شو نے لفافے پر کیا پتہ لکھا؟

جواب : لین شو نے لفافے پر یہ لکھا “یہ خط خدا کو ملے”

سوال 6 : پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط پڑھنے کے بعد کیا کہا؟

جواب : پوسٹ ماسٹر نے کہا کہ واہ، واہ کیا پختہ ایمان ہے۔ کاش مجھے بھی ایسا ایمان نصیب ہوتا اور میں بھی ایسے ہی یقین کا حامل ہوتا۔ کیا بات لکھنے والے کی جس نے ایک پختہ امید پر خدا سے خط و کتابت شروع کر دی، واہ، واہ!!

سوال 7 : لین شو نے پہلے خط کا جواب ملنے کے بعد دوسرے خط میں خدا کو کیا لکھا؟

جواب : لین شو نے پہلے خط کا جواب ملنے کے بعد دوسرے خط میں خدا کو یہ لکھا کہ:
یاربی! جو رقم میں نے طلب کی تھی، اس میں سے مجھے صرف ستّر روپے ہی ملے ہیں، باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں۔ مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے لیکن اب باقی کی رقم ڈاک کے ذریعہ ہر گز نہ بھیجیں، کیونکہ اس ڈاک خانہ کے ملازمین بے ایمان اور بددیانت ہیں۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجئے۔

﴿اکلوتا، ملازمین، نیک دلی، پختہ یقین، تکیہ کرنا، پالنہار،﴾

1. اکلوتا : ایان اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہے۔
2 . ملازمین : ایان کے یہاں کئی ملازمین کام کرتے ہیں۔
3 . نیک دلی : ہمیں سب کے ساتھ نیک دلی سے سلوک کرنا چاہیے۔
4 . پختہ یقین : خدا پر ہر حالت میں پختہ یقین رکھنا چاہیے۔
5 . تکیہ کرنا : ہمیں صرف خدا پر تکیہ کرنا چاہیے۔
6 . پالنہار : ہم سب کا خدا ہی پالنہار ہے۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے۔

الفاظ متضاد
نزدیک دور
تیز آہستہ
شکست فتح
پختہ کمزور
موجود غائب
شہر گاؤں

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے جمع بناۓ۔

واحد جمع
مکان مکانات
چادر چادریں
روح ارواح
سبزی سبزیاں
افسر افسران
خط خطوط

⭕️ عملی کام:

خدا کے نام لکھے گئے لین شو کے خطوط کو اپنے الفاظ میں لکھے۔

پہلا خط▪️

اے میرے اللہ ! اب تو ہی مددگار ہے، اگر تو نے ہی میری مدد نہ کی تو اس برس میں اور میرے سارے گھر والے بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔ اے اللہ مجھے اس وقت سو روپے چاہئے۔ میں ان سے اپنے کھیتوں کی حالت ٹھیک کرنا چاہتا ہوں اور بوائی سے دوسری فصل اگانا چاہتا ہوں، اور دوسری فصل کے کٹنے تک میں زندہ بھی رہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اولوں کی بارش نے میری ساری فصل برباد کر دی ہے۔

دوسرا خط▪️

اے میرے اللہ!
میں نے جتنی ضروری رقم مانگی تھی اس میں سے مجھے ستر روپیہ ہی مل سکے ہیں۔ تو مجھے باقی رقم جلدی سے بھیج دے، مجھے بہت زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن اے اللہ! اب تو باقی رقم مجھے ڈاک کے ذریعے مت بھیجنا، کیونکہ ڈاک خانے میں کام کرنے والے ملازمین بہت بے ایمان اور بددیانت ہیں۔

تحریر 🔘ارمش علی خان محمودی بنت محمد طیب عزیز خان محمودی🔘