زبانوں کا گھر ہندوستان ،خلاصہ ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 07: مضمون
  • مصنف کا نام: احتشام حسین
  • سبق کا نام: زبانوں کا گھر، ہندوستان

سبق زبانوں کا گھر، ہندوستان کا خلاصہ

اس سبق میں مصنف نے ہندوستان میں زبانوں کے سفر کی داستان کو بیان کیا ہے۔ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے جہاں ندیاں، پہاڑ ، گلستان ، ریگستان وغیرہ موجود ہیں تو ساتھ ہی یہاں بسنے والے گورے ، کالے ، لمبے ، چھوٹے ، جنگلیوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ، شہریوں کی طرح زندگی گزارنے والے غرض ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو ہندوستان میں بسے پانچ ہزار برس سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔کچھ تھوڑے عرصے پہلے بسنے والی قومیں ہیں غرض یہاں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔یہی اس ملک کی بڑائی کی پہچان بھی ہے۔اگر پانچ ہزار برس پہلے کے سفر کو دیکھیں تو اس زمانے میں یہاں دور دور سے لوگ آئے۔جو وحشیوں سی زندگی بھی بسر کرتے تھے۔

کھانگ پینے کی تلاش میں ٹولیوں میں پھرتے، جانوروں کا شکار کرتے یا درختوں کے پتے کھا کر گزارا کر لیتے تھے۔اس نسل کے کچھ لوگ آج بھی بنگال ، بہار ، چھوٹا ناگپور اور وندھیا چل کے پہاڑوں کے قریب بستے ہیں۔ان کی بولی جانے والی زبان آج بھی الگ ہے ان قبائل میں کول اور منڈا قبیلے مشہور ہیں۔

دنیا میں ہمیشہ ہر قوم کوئی نہ کوئی زبان بولتی ہے۔اس قوم کے ہزار ڈیڑھ برس بعد پچھم کی طرف سے دراوڑ قوم آئی تھی جنھوں نے خوب ترقی کی تھی اور ان کے قبیلے کے لوگ آج بھی مدراس ، میسور ، آندھرا پردیش جیسے علاقوں میں موجود ہیں۔ تامل اور تیلگو نامی زبانیں اسی قوم کی زبانیں ہیں۔

ہندوستان کی سر زمین سے باہر ایران ، چین اور ترکستان میں آریہ نامی قوم ترقی کر رہی تھی۔ یہ لوگ بہادر، خوبصورت اود گھوڑے سے کام لینے کا طریقہ جانتے ہوئے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ساڑھے تین ہزار برس یہ قوم ہندوستان آئی اور یہاں کے پرانے بسنے والوں کو ہرا کر ان پر اپنا راج قائم کیا۔ان کی زبان آریائی تھی جس میں انھوں نے بہت سے بھجن اور گیت وغیرہ لکھے۔سنسکرت بھی اسی زبان کی ایک شاخ ہے۔

یورپ کی کئی زبانیں اور فارسی وغیرہ اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں یہ سب زبانیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔سنسکرت چونکہ ہندوستانی آریاؤں کی زبان تھی اور یہاں کے تمام لوگ اس زبان کو نہیں بول سکتے تھے۔یہاں پرانے بسنے والے لوگوں کی اپنی بولیاں ہونے کی وجہ سے سنسکرت اونچے درجے کے لوگوں کی زبان بن کر رہ گئی۔

عام لوگ جس زبان کو بولتے تھے وہ پراکرت کہلائی جانے لگی اور ہر علاقے کی اپنی پراکرت تھی۔ وہاں کے سادھو ، سنتوں نے بھی انھی مقامی پراکرتوں کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔اتری بھارت میں بولی جانے والی پراکرت کو اس وقت شور سینی کہتے تھے۔اسی سے ہندوستانی ، ہندی اور اردو زبان نے جنم لیا۔

بنگالی ، مراٹھی، پنجابی ، سندھی اور گجراتی وغیرہ نئی آریائی زبانیں تھیں۔مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے ان زبانوں نے ترقی کی۔ آنے والے وقتوں میں ترقی کرنے والے زبانوں میں ایک اردو زبان بھی شامل ہے جو کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ یہاں کی مقامی زبانوں سے جنم لے کر اس

⭕️مندرجہ ذیل اقتباس کی تشریح کیجئے۔

اقتباس 1 :

“ہندوستان ایک لمبا چوڑا دیس ہے۔ جس میں کہیں اونچے پہاڑ اور گلہری ندیاں راستہ روکتی ہیں۔کہیں پھیلے ریگستان ہے جن میں آبادی کم ہیں۔ اورکہیں زمین سونا اُگلتی ہے اور کہیں بنجر ہےکچھ پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہاں کے بسنے والوں کو دیکھو تو کالے بھی ہیں اور گورے بھی۔ خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی۔ لمبے قد والے بھی ہیں اور چھوٹے قد والے بھی۔ جنگلیوں کی طرح زندگی گزارنے والے بھی ہیں اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی”۔

حوالہ: یہ اقتباس ہماری کتاب میں شامل ہے اور سبق مضمون”زبانوں کا گھر ہندوستان” سے لیا گیاہے۔ اس کے مصنف کا نام سید احتشام حسین ہے۔

تشریح : ہمارا ملک ہندوستان بہت پھیلا ہوا اور بڑا دیش ہے۔ یہاں اونچے اونچے پہاڑ بھی ہیں اور طرح طرح کی ندیاں بھی ہیں جو مسافروں (آنے جانے والے لوگوں) کا راستہ روک لیتی ہیں۔ کہیں بہت بڑے بڑے ریگستان ہیں جہاں لوگ بہت کم رہتے ہیں۔ اس کی زمین کہیں تو خوب فصلیں پیدا کرتی ہے اور کہیں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اس ملک میں کالے، گورے، خوبصورت اور بدصورت چوٹے قد والے، اور بڑے قد والے یعنی ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔کچھ لوگ جنگلیوں کی طرح اپنا گزارا کرتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔

اقتباس 2 :

یہ بتانا کٹھن ہے کہ پانچ ہزار برس سے یہاں کون کون لوگ بستے تھے، مگر اب بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانے سے یہاں دور دور سے لوگ آنے لگے۔ اتنا سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں ہے کہ پہلے دنیا کے زیادہ تر لوگ وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور کھانے پینے کی کھوج میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ جانوروں کا شکار کرتے تھے یا درختوں کے پھل، پتے اور جڑ کھا کر پیٹ بھرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ یہاں بھی پہنچے۔ ان کی نسل کے لوگ اب بھی بنگال، بہار، چھوٹا ناگپور اور وندھیا چل کے پہاڑوں کے قریب پائے جاتے ہیں۔ وہ جو زبان بولتے تھے وہ آج بھی الگ ہے۔

حوالہ: یہ اقتباس ہماری کتاب میں شامل ہے اور سبق مضمون”زبانوں کا گھر ہندوستان” سے لیا گیاہے۔ اس کے مصنف کا نام سید احتشام حسین ہے۔

تشریح: سید احتشام حسین اپنے خاص انداز سے اس اقتباس میں لکھتے ہیں کہ یہ بتانا بڑا مشکل کام ہے کہ پانچ ہزار سال پہلے ہمارے ملک میں کون کون لوگ رہتے تھے۔ لیکن اب بہت سے لوگ یہ بات جان گئے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہی سے یہاں پر دور دور کے ملکوں کے لوگ آنے لگے تھے۔ اور یہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ پہلے کی دنیا کے لوگ جانوروں کی طرح سے اپنی زندگی گزارا کرتے تھے اور چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر کھانے پینے کی تلاش میں اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے رہتے تھے۔ وہ جنگلی جانوروں کا شکار کرتے تھے، یا وہ پیڑوں کے پھول، پتے اور جڑ کھا کر اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ ویسے بہت سے لوگ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی آئے، ان لوگوں کی نسل کے بہت سے لوگ آج بھی بنگال، بہار، چھوٹا ناگپور اور وندھیاچل کے پہاڑوں کے قریب اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، وہ لوگ جو بھی بولی بولتے تھے، وہ آج بھی سب سے الگ ہیں۔

⭕️ غور کیجئے۔

آریائی لوگ جب ایران سے چل کر ہندوستان آئے تو ان کے زمانے سے اردو کے لیے ماحول بنا۔ اس طرح ہندوستان میں پیدا ہوئی اس زبان کو گنگا جمنی تہزیب (مختلف مذہبوں کی ایکتا) کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس اردو زبان کی شکل و صورت تیار ہونے میں عربی اور فارسی کے علاوہ ہندوستان کے مختلف بولیوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

⭕️سوالات و جوابات۔

سوال 1 : ہندوستان کی خصوصیات کیا ہے؟

جواب : ہندوستان لمبا چوڑا ملک ہے، یہاں اونچے اونچے پہاڑ ہیں، ندیاں ہیں، ریگستان ہیں، یہاں کی زمین کہیں سونا اگلتی ہے، کہیں بنجر ہے ہیں۔ یہاں کالے، گورے، خوبصورت اور بدصورت، شہری و دیہاتی سبھی لوگ رہتے ہیں۔

سوال 2 : ہندوستان کے قبائلی نسلوں کے نام کیا ہے؟

جواب : دراوڑ، کول اور منڈا ہندوستان کے قبائلی نسلوں کے نام ہیں۔

سوال 3 : دراوڑ کونسی زبانیں بولتے ہیں؟

جواب : دراوڑ لوگ تامل اور تیلگو زبان بولتے ہیں۔

سوال 4 : سنسکرت کس زبان کی شاخ ہے؟

جواب : سنسکرت آریائی زبان کی شاخ ہے۔

سوال 5 : اُتر بھارت میں کون سی پراکرت بولی جاتی تھی؟

جواب : اُتر بھارت میں پراکرت شورسینی بولی جاتی تھی۔

سوال 6 : ہند آریائی زبانیں کون کون سی ہیں۔

جواب : بنگالی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی، سندھی، آسامی اور اُڑیا یہ ہند آریائی زبانیں ہیں۔

سوال 7 : اردو کہاں پیدا ہوئی اور کس زبان سے نکلی ہے؟

جواب : اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہ شمالی ہند (اتری بھارت) کی پراکرت شورسنی کے پیٹ سے نکلی ہے۔

⭕️ عملی کام

سوال:۔ استاد کی مدد سے اردو زبان سے متعلق ایک مضمون لکھیے۔

جواب :۔ اردو ہندوستان کی پیدا شدہ زبان ہے اور یہ شمالی ہند میں دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقے میں پیدا ہوئی۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں عربی اور فارسی اور ترکی زبانوں کے الفاظ شامل ہوگئے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی مقامی بولیوں نے اردو کی عمارت تعمیر کرنے میں بنیاد کا کام کیا اور عربی اور فارسی زبانوں نے اردو زبان کو بنانے، سجانے اور آگے بڑھانے کا کام کیا۔

جب اس زبان کا نام اردو نہیں تھا اس وقت اسے اپنی شاعری میں سب سے پہلے حضرت امیر خسرو نے استعمال کیا۔ آگے چل کر اسی طرح دیو کبیر داس اور گرو نانک نے بھی کی۔ اس وقت شمالی ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی، ان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ایسے عالم میں اردو کی نشو و نما نہ ہوسکی۔ مگر یہ زبان دکن یعنی جنوب چلی گئی۔ وہاں تقریباً دو سو سال تک دکنی لوگوں نے اس کی پرورش اور نشو و نما کے لئے تاریخی کارنامے انجام دیئے۔ اس زبان کے کئی نام رکھے گئے، مگر سب سے زیادہ اسے اردو کے نام سے پکارا گیا پھر یہی نام طے ہو گیا۔

⭕️ سید احتشام حسین کی حالات زندگی۔

  • اصل نام : سید احتشام حسین
  • پیدائش : 1912ء یوپی کے شہر اعظم گڑھ قصبہ ماہل میں پیدا ہوے۔
  • وفات : 1972ء میں انتقال ہوا۔

سید احتشام حسین 1912ء میں یوپی کے شہر اعظم گڑھ کے پاس قصبہ ماہل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم و تربیت اعظم گڑھ میں حاصل کی، پھر الہ آباد آگئے۔ سید احتشام حسین کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت تنقید کے میدان میں حاصل ہوئی۔ تنقید کے موضوع پر انہوں نے کئی مضامین اور کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے یورپ کے سفر بھی کئے۔ احتشام حسین کے کئی مضامین اردو زبان و ادب کے مختلف نصابوں میں شامل ہیں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کے لئے انہوں نے اردو کی کہانی کے نام سے ایک تاریخی کتاب لکھی ہے۔ ان کا انداز بیان دلچسپ ہے۔ اس میں خوبصورت الفاظ کا انتخاب ہے۔ انہوں نے جو بھی لکھا ہے فائدہ مند موضوعات پر ہی لکھا ہے۔ 1972ء میں ان کا انتقال ہوا۔

تحریر ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی🔘