کوئی امید بر نہیں آتی تشریح

0
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

حوالہ: یہ سبق ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق غزل سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تشریح : غالب اپنے غزل کے مطلع میں کہتے ہیں کہ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ اب ہماری کوئی امید پوری نہیں ہوتی، اور نہ ہی امید پوری ہونے کی کوئی صورت نظر آ رہی ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

حوالہ : یہ سبق ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق غزل سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تشریح : غالب اپنے اس شعر میں کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ موت کا ایک دن طے ہے۔ آج کی رات ہمیں نیند نہیں آ رہی ہے، تو کیا آج ہمیں موت آنے والی ہے۔

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

حوالہ : یہ سبق ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق غزل سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تشریح : غالب اس شعر میں کہتے ہیں کہ پہلے تو ہمیں اپنے دل کی حالت پہ ہنسی آتی تھی، لیکن اب کسی بات پر بھی ہنسی نہیں آتی، اب تو ہم ہنستے ہی رہتے ہیں، یعنی ہم پاگل ہو گۓ ہیں۔

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

حوالہ : یہ سبق ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق غزل سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تشریح : غالب اس شعر میں کہتے ہیں کہ در اصل کوئی ایسی بات پیش نظر ہے اس لیے میں خاموش ہوں۔ ورنہ یہ نہ سمجھ کہ مجھے بات کرنا یا بات کا جواب دینا نہیں آتا۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

حوالہ : یہ سبق ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق غزل سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تشریح : غالب اس مقطع میں کہتے ہیں کہ اے غالب تم کعبہ جا تو رہے ہو مگر یہ بتاؤ کہ کس منہ سے جا رہے ہو، یعنی تم کعبہ جانے کے لائق نہیں ہو پھر بھی کعبہ جا رہے ہو، کیا کعبہ جانے میں تمہیں شرم نہیں آ رہی ہے۔ یعنی تم بے شرم آدمی ہو۔

غور کیجئے:

مرزا غالب نے اپنی اس غزل میں دو لفظ ایسے استعمال کیے ہیں جو معنی کے لحاظ سے آج کے دور میں استعمال نہیں ہوتے۔ ایک لفظ ہے “آگے” اور دوسرا لفظ “کر” پرانے دور میں “آگے” کا مطلب ہے ‘پہلے’ یا ‘پچھلے’ دور میں میں، آج کے دور میں “آگے” کا مطلب ہے ‘بعد میں’ یا ‘اگلے دور’ میں۔
غالب نے چوتھے شعر میں لفظ “کر” استعمال کیا ہے، اس کا مطلب ہے ‘کرنا’۔ مگر آج کے دور میں ‘کر’ استعمال نہیں ہوتا، اب تو ‘کرنا’ ہی استعمال ہوتا ہے۔

سوالات و جوابات :

سوال 1 : “کوئی صورت نظر نہیں آتی” سے کیا مراد ہے؟

جواب : کوئی صورت نظر نہیں آتی، سے مراد ہے کہ حالات بہت خراب ہیں، اور کام کا ہونا ممکن نہیں ہے۔

سوال 2 : دوسرے شعر کا مفہوم بیان کیجیے؟

جواب : موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح : مرزا غالب اپنے اس شعر میں کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ موت کا ایک دن آنا طے ہے۔ تو آج کی رات ہمیں نیند کیوں نہیں آ رہی ہے، لگتا ہے موت ہمیں آج ہی آنے والی ہے۔

سوال 3 : کعبہ جانے سے شاعر کو شرم کیوں آتی ہے؟

جواب : کعبہ جانے سے شاعر کو شرم نہیں آ رہی ہے ۔ اسی لیے وہ کعبہ جا رہا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کعبہ جانے کے لائق نہیں ہیں۔

عملی کام :

  • اس غزل کے قافیہ اپنی کاپی میں لکھیں۔

جواب :بر، نظر، بھر، پر، کر، مگر،

⭕️غالب کی حالات زندگی تحریر کیجئے۔

  • اصل نام : مرزا اسعد اللہ خاں غالب
  • تخلص : پہلے اسعد بعد میں غالب
  • پیدائش : 1797ء اکبر آباد (آگرہ)
  • وفات : 1869ء دہلی میں
  • مرزا غالب 1797عیسویں کو اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوۓ۔ بچپن میں والد کا انتقال ہو گیا۔ چچا نے پرورش کی۔ شادی ہونے کے بعد دہلی آ گۓ۔ دہلی کے علمی ادبی ماحول میں غالب کی شاعرانہ طبیعت نے خوب زور دکھایا۔ اس میدان میں غالب نے جو بلندی حاصل کی وہ بے مثال ہے۔ غالب نے اپنے انوکھے انداز سے اردو شاعری کی دنیا میں زبردست عظمت و شہرت حاصل کی۔ غالب نے نثر میں بھی دلچسپ خطوط نگاری کی ہے جو قیمتی سرمایہ ہے۔ مگر غالب کو خاص طور پر غزل میں مقبولیت حاصل ہے۔ غالب کامیاب اور لاجواب شاعر ہے۔ غالب کا انتقال 1869 عیسویں میں ہوا۔ ان کا مزار دہلی میں ہے۔
تحریر 🔘ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی🔘