قول کا پاس ، خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق نمبر 04: کہانی
مصنف کا نام: منشی پریم چند
سبق کا نام: قول کا پاس

کہانی قول کا پاس کا خلاصہ

سبق “قول کا پاس” پریم چند کی سبق آموز کہانی ہے۔ اکبر بادشاہ جس نے اپنی طاقت کے زور پہ ہندوستان کو فتح کر لیا مگر راجپوتانہ کو اپنے قبضے میں نہ کر پایا تھا کہ راجپوتوں کے سردار پرتاپ سنگھ نے اس کے خلاف اعلان بغاوت کیا تھا۔

اسی راجپوت قوم سے تعلق رکھنے والا ایک جری سردار رگھوپت تھا۔ اس کی بہادری سے بڑے بڑے مغل بھی خوفزدہ تھے۔ اکبر بادشاہ کے سپاہیوں نے بھی اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔رگھوپت کی بیوی اور ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ا س کا بیٹا بیمار تھا۔ رگھوپت جب گھر سے لڑنے نکلا تو چوری چھپے وہ بیوی اور بیٹے کی خبر رکھتا تھا۔اکبر بادشاہ نے اس کو پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا آخر اس نے اس کے گھر پر پہرہ لگوا دیا کہ جیسے ہی وہ بیوی اور بچے کو ملنے آئے گا گرفتار کر لیا جائے گا۔

انھی دنوں رگھوپت کو بیٹے کی بیماری کی خبر ملی۔ وہ اس سے ملنے گھر پہنچا تو پہرے پر موجود سپاہی نے اسے گرفتار کرنا چاہا۔ رگھوپت نے اسے بتایا کہ اس کا بیٹا موت کی دہلیز پر وہ اسے اس سے ملنے دے اور اس کے بعد وہ خود اپنی گرفتاری دے گا اور وہ قول کا پکا ہے اور راجپوت ہے اس لیے وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ سپاہی نے اسے جانے دیا۔ بیٹے سے ملنے اور ا سکی دوا کے مطلق بیوی کو ہدایات دینے کے بعد اس نے بیوی کو گرفتاری دینے کا بتایا۔

اس کی بیوی نے اسے دوسرے دروازے سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ مگر رگھوپت نے کہا کہ مجھے ہہ ہر گز قبول نہیں ہے کیوں کہ میں زبان دے چکا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ سپاہی کے پاس آیا مگر سپاہی نے کہا کہ اس کے جی اسے گرفتار کرنے کو نہیں چاہتا لہذا وہ بھاگ جائے۔ رگھوپت نے سپاہی سے کہا کہ تم نے میری مدد کی ضرورت پڑنے پر میں تمھاری مدد کروں گا اور وہاں سے چلا گیا۔

بادشاہ کے آدمیوں کو جب خبر ملی تو وہ رگھوپت کے گھر پہنچے۔ پہرے والے سپاہی نے سارا واقعہ ان کو سچ بتا دیاجسے سن کر افسر نے اس پہرے دار کو گرفتار کر لیا۔ رگھوپت تک جب اس پہرے دار کی گرفتاری کی خبر پہنچی تو اس نے افسر کے سامنے آکر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا اور سپاہی کو چھوڑ دینے کا کہا۔ رگھوپت کو تو گرفتار کر لیا گیا مگر سپاہی کو نہ چھوڑا گیا۔

افسر نے سپاہی اور رگھوپت دونوں کے قتل کا حکم دیا۔ دوسرے روز ان دونوں کے ہاتھ ،پیر باندھ کر قتل کے لیے میدان میں لایا گیا۔دور کہیں سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ اکبر بادشاہ اپنے افسروں کے ساتھ وہاں آیا تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ رگھوپت کے گرفتاری کے تمام واقعے سے واقف ہو چکا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ پہرے دار ایک بھلا آدمی تھا کہ جس کے دل میں خوف خدا موجود تھا اور تکلیف میں دیکھ کر کسی کا دل بھی بھرا سکتا ہے اس لیے پہرے دار کو چھوڑ دیا جائے کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔

اکبر بادشاہ نے رگھوپت کو دیکھ کر کہا کہ مجھے پہلے معلوم نہ تھا کہ راجپوت اپنے بہادر اور وعدے کے پابند ہوتے ہیں اس لیے میں تمھیں بھی آزاد کرتا ہوں۔یہ سن کر رگھوپت نے بادشاہ سے کہا کہ آج تمہاری دریا دلی نے میرا دل بھی جیت لیا ہے۔ آپ واقعی بہادروں کی اہمیت سے واقف ہیں آج کے بعد میں آپ کے خلاف ہر گز تلوار نہ اٹھاؤں گا۔ یوں مصنف نے کہانی میں سچے وعدے اورسچ کی وقعت کو بیان کیا ہے۔

مندرجہ ذیل اقتباس کی تشریح کیجئے۔

اقتباس 1 :

اکبر مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ اس نے لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا۔ ایک راجپوتانہ رہ گیا تھا۔ اکبر نے چاہا کہ اسے بھی فتح کر لیں اور وہاں بھی سلطنت کرے۔ یہ ارادہ کر کے راجپوتانہ پر فوج کشی کی۔ راجپوت اپنا ملک بچانے کے لیے لڑے تو بڑی بہادری سے مگر آخرکار ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ راجپوتوں کا سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کو لے کر جنگل میں جا چھپا۔

حوالہ : یہ اقتباس ہماری کتاب میں شامل ہے اور سبق “قول کا پاس” سے لیا گیا ہے۔ اس کے مصنف کا نام منشی پریم چند ہے۔

تشریح : مغل خاندان کے بادشاہوں میں ایک بہت مشہور ہوا ہے۔ اس نے لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کے بہت سے بڑے حصے کو فتح کرکے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ صرف راجستھان بچا رہ گیا تھا۔ اسے جیتنے اور حکومت قائم کرنے کی چاہت ہوئی۔ اس ارادے کے ساتھ اس نے راجستان پر حملہ کر دیا۔ راجپوت قوم بہت بہادری سے لڑیں مگر اکبر کی بڑی فوج کے سامنے وہ ٹک نہ سکی۔ رانا پرتاپ سنگھ جو راجپوتوں کا سردار تھا وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ کسی جنگل میں جا کر چھپ گیا۔

غور کیجئے۔

پریم چند نے اپنی اس کہانی “قول کا پاس” سے یہ سبق دیا ہے کہ انسان کو اپنی بات اپنے وعدے کا پکا ہونا چاہیے۔ قول کا پاس رکھنے والے لوگ ہی دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔

سوالات و جوابات

سوال 1 : اکبر کس خاندان کا بادشاہ تھا؟

جواب : اکبر مغل خاندان کا بادشاہ تھا۔

سوال 2 : راجپوتوں کے سردار کا نام کیا تھا، وہ جنگل میں کیوں چھپ گیا تھا؟

جواب : راجپوتوں کے سردار کا نام رانا پرتاپ سنگھ تھا، وہ اپنی اور بچوں کی جان بچانے کے لئے جنگل میں چھپ گیا تھا۔

سوال 3 : رگھوپت نے پہرےدار کی مدد کس طرح کی؟

جواب : رگھوپت کوجب معلوم ہوا کہ پہرےدار کو گرفتار کر لیا ہے ، تو وہ مغل افسر کے پاس آیا اور کہا کہ میں رگھوپت ہوں مجھے پکڑ لو اور پہرےدار کو چھوڑ دو۔

سوال 4 : اکبر رگھوپت کی کس بات سے متاثر ہوا؟

جواب : اکبر رگھوپت کی اس بات سے متاثر ہوا کہ راجپوت اپنی بات کے دھنی ہوتے ہیں۔

سوال 5 : اکبر نے رگھوپت کا دل کس طرح جیت لیا؟

جواب : اکبر کی دریا دلی نے رگھوپت کا دل جیت لیا۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجئے۔
سلطنت، فوج، پہرےدار، تدبیر، قصور

  • لفظ 1 : سلطنت
  • جملے : مغل بادشاہ اکبر کی سلطنت بہت بڑی تھی۔
  • لفظ 2 : فوج
  • جملے : ہر ملک اپنی حفاظت کے لیے فوج ضرور رکھتا ہے۔
  • لفظ 3 : پہرےدار
  • جملے : پہرے دار کو بہادر، ایماندار، ہوشیار اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔
  • لفظ 4 : تدبیر
  • جملے : اچھی تدبیر سے تقدیر بدل سکتی ہے۔
  • لفظ 5 : قصور
  • جملے : قصور کی سزا ضرور ملتی ہے۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریں۔
﴿دروازے، وعدے، اکبر، سپاہی، رگھوپت﴾

  • ▪️1 : ….. اکبر….. بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔
  • ▪️2 : راجپوتوں کے ایک سردار کا نام….. رگھوپت…..تھا۔
  • ▪️3 : بیوی نے کہا “ایسا نہ کرو دوسرے …..دروازے…..سے نکل جاؤ”۔
  • ▪️4 : دوسرے دن…..سپاہی….. اور پہرے دار کو میدان میں لائے۔
  • ▪️5 : جو آدمی اپنے…..وعدے….. کے پکے ہوتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے واحد کی جمع بنائیں۔

واحد جمع
فوج افواج
تدبیر تدابیر
مدد امداد
ملک ممالک
سفر اسفار

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے مذکر سے مؤنث بنائے۔

مزکر مؤنث
بادشاہ ملکہ
مرد عورت
گھوڑا گھوڑی
بیٹا بیٹی
لڑکا لڑکی

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجئے۔

پاؤں کا اُکھڑنا بہادروں کے آگے کمزوروں کے پاؤں اُکھڑ جاتے ہیں۔
ڈھارس باندھانا اکرم فیل ہوا تو دوستوں نے اس کی ڈھارس بندھائی۔
قول دینا اکرم نے چار دن میں قرض لوٹانے کا قول دیا ہے۔
دل بھر آنا ارمش علی خان کو روتا دیکھ میرا دل بھر آیا۔
پھولا نہ سمانا میری بھتیجی “ارم نرگش” پاس ہوئی تو میں پھولا نہ سمایا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھۓ۔

الفاظ متضاد
1: سچائی جھوٹ
2: دُکھ سُکھ
3: بہادر بزدل
4: قید آزاد
5: دشمن دوست
6: محبت نفرت

اسمِ عام اور اسمِ خاص الگ الگ کیجیۓ۔
اکبر، بادشاہ، رگھوپت، بہادر، راجپوتانہ، بیٹا، گھوڑا

اسمِ خاص اسمِ عام
اکبر بادشاہ
رگھوپت بہادر
راجپوتانہ بیٹا
گھوڑا

عملی کام:

  • 1_ اس سبق سے کیا نصیحت ملتی ہے اپنے الفاظ میں لکھیۓ۔
  • جواب_ اس سبق سے ہم کو یہ نصیحت ملتی ہے کہ چاہے مامال جائے یا چاہے جان جائے مگر ہمیں ہر صورت میں اپنی بات یا اپنے وعدے کا پابند رہ کر اسے پورا کرنا چاہیے۔ وعدے کا جو بھی پابند ہوگا دنیا میں اس کی عزت ہوگی۔

2 _ اکبر کی شخصیت پر پانچ جملے لکھۓ۔

  • (1) اکبر مغل خاندان کا مشہور بادشاہ تھا۔
  • (2) اکبر نے لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا۔
  • (3) اکبر کی حکومت میں ہر مذہب کے ماننے والے خوش اور آباد تھے۔
  • (4) اکبر بہت دریا دل اور انصاف پسند تھا۔
  • (5) اکبر وعدہ وفا کرنے والے سے بہت خوش ہوتا تھا۔

⭕️ منشی پریم چند کی حالات زندگی:

  • اصل نام : دھنپت رائے
  • ادبی نام : پریم چند
  • پیدائش : 1880ء بنارس کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوے۔
  • وفات : 1936ء میں 56 برس کی عمر میں بنارس میں ہی انتقال ہوا۔

منشی پریم چند اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوشن پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے۔ پھر کانپور کے اسکول میں استاد کی حیثیت سے ملازم ہو گۓ۔ اور انہوں نےاسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے بچپن ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ گاؤں کے غریبوں اور کسانوں کی غریبی کو بہت قریب سے دیکھا اور گاؤں ، دیہات کی زندگی کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔ پریم چند کی زبان بہت آسان تھی۔ پریم چند نے ایک درجن ناول اور تین سو سے زیادہ افسانے لکھیں۔ پریم چند کا انتقال 1936ء میں بنارس میں ہوا۔

تحریر 🔘 ارمش علی خان محمودی🔘