سبق: نئی روشنی خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 15: مکالمہ
  • سبق کا نام : نئی روشنی

خلاصہ سبق: نئی روشنی

اس سبق میں مکالمے کے ذریعے سے نابینا افراد کے طریقہ تعلیم اور ترقی کرنے کی معلومات کو پیش کیا گیا ہے۔ اسلم اور جاوید اپنی کلاس میں بیٹھے بات کر رہے ہوتے ہیں ان کا موضوع ایک نابینا بچہ ہے جس کو حال ہی میں ان کی کلاس میں داخلہ ملا ہے۔

دونوں اس بات کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ اگر وہ نابینا ہے تو پڑھے گا کیسے؟ ماسٹر صاحب کے کلاس میں آتے ہی وہ سلام دعا کے بعد ماسٹر صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ حال ہی میں ہماری کلاس میں نابینا بچے کو داخلہ دیا گیا ہے وہ کیسے پڑھے لکھے گا؟ ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے ٹھیک سنا محمود کل سے تم لوگوں کے ساتھ پڑھے گا۔وہ تم لوگوں جیسا ہی ہے بس دیکھ نہیں سکتا گزشتہ سال بھی وہ اپنی جماعت میں اول آیا ہے۔

اسلم پوچھتا ہے کہ جب اسے دکھائی نہیں دیتا تو وہ پڑھتا کس طرح سے ہے؟ ماسٹر صاحب ںے انھیں بتایا کہ وہ ایک تحریر ‘بریل’ کے ذریعے پڑھتا ہے۔جاوید نے پوچھا کہ اس تحریر کو آنکھوں کے بنا پڑھنا کس طرح ممکن ہے تو ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ایک خاص آلے کی مدد سے موٹے کاغذ پر حروف کو ابھارا جاتا ہے اس میں چھے نقطے ہوتے ہیں اور کوئی بھی زبان اس تحریر کو چھو کر پڑھی جاسکتی ہے۔اسی کی مدد سے آج کئی بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

زاہدہ نے پوچھا کہ یہ تحریر کس کی ایجاد کردہ ہے۔ جس پر ماسٹر صاحب نے بچوں کو بتایا کہ فرانس میں کوپ برے نامی قصبے میں ایک شخص لوئی بریل تھا۔ دو سال کی عمر میں آنکھوں میں نوکیلی شے لگنے سے اس کی بینائی ضائع ہو گئی۔لوئج بریل کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔اسس نے بیس سال کی مسلسل محنت سے اس خط کو ایجاد کیا۔جس سے اس نے نابینا لوگوں کے لیے تعلیم کا ایک راستہ کھول دیا۔

اسلم نے ماسٹر صاحب سے محمود کی کاپی جانچنے کا پوچھا تو ماسٹر صاحب نے بچوں کو بتایا کہ محمود ایک محنتی طالب علم ہے وہ کسی سے مدد لے کر کام لکھوا تو سکتا ہے مگر آج کل بہت لگن سے ٹائپ سیکھ رہا ہے اور ہماری زبان میں ہی کام لکھ کر چیک کروائے گا۔اگر تمام بچے اسے ایک مرتبہ لائبریری یا کلاس روم کا راستہ سمجھا دیں تو وہ خود سفید چھڑی کی مدد سے آ جا سکتا ہے۔

بچوں نے استاد صاحب سے سفید چھڑی کے بارے میں معلوم کیا تو ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ایسے لوگوں کو دیکھ کر عام لوگ ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کرتے ہیں۔ اسلم نے مستقبل میں محمود کے کام کرنے کے متعلق دریافت کیا تو ماسٹر صاحب بتانے لگے کہ محمود جیسے بچے محنت سے تعلیم حاصل کرکے آگے خود کما بھی سکتے ہیں۔ یہ کارخانوں میں بہت مہارت سے مشینوں پر کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ استاد ، وکیل ، موسیقار اور اخبار نویس وغیرہ بن سکتے ہیں کئی اس طرح کے لوگ آج کل بڑے بڑے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے سماج کے کیے مفید لوگ ہیں اس لیے سب بچے ایسے لوگوں اور محمود کی مدد کریں۔ جنید نے ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ کیا ایسے بچے ہمارے طرح کے بچوں کے اسکولوں میں ہی پڑھتے ہیں؟ جس پر ماسٹر صاحب نے انھیں بتایا کہ ایسے بچوں کے الگ سکول بھی ہوتے ہیں جہاں ان کی رہائش کا مکمل انتظام ہوتا ہے۔ہمارے ملک قریب اڑھائی سو کے ایسے سکول موجود ہیں جہاں ان بچوں کو پڑھنے لکھنے کے ساتھ روزگار اور کھیل کود کے کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔یہ رسا کشی ، تیراکی ، شطرنج اور کبڈی جیسے مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔

اکرم نے سوال کیا کہ کیا یہ لوگ کرکٹ کھیلتے ہیں جس پر استاد نے بتایا کہ حال ہی میں ایسے کھلاڑیوں کا میچ دکھایا گیا ہے اور یہ لوگ کرکٹ میں حصہ لیتے ہیں ان کے لیے ایک خاص طرح کا گیند ہوتا ہے۔جس کی آواز سے یہ اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کےلیے ایسا کمپیوٹر ڈیزائن کیا جاتا ہے جس کے حرف کو دبایا جائے تو وہ بٹن وہی آواز نکالتا ہے اور ایک خاص پرنٹر کے ذریعے یہ اس بریل تحریر کو اپنے سامنے لا سکتے ہیں۔ ماسٹر صاحب نے بچوں کو بتایا کہ ایسے لوگوں کی انگلیوں کی پوریں اور کان بہت حساس ہوتے ہیں۔

جس چیز کو ایک بار چھو لیں یا بات کو سن لیں اسے بھولتے نہیں ہیں۔ اسلم کے پوچھنے پر استاد نے بچوں کو بتایا کہ ان میں سے کچھ لوگوں میں پیدائشی بینائی جبکہ کچھ میں وٹامن اسے کی کمی یا کسی حادثے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو جاتی ہے۔اس لیے کھانے میں وٹامن است کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہری ترکاریاں ، گاجر ، پیلے پھل ، کدو وغیرہ کو غذا میں شامل کرنا چاہیے۔گلی ڈنڈا ، نوکیلی چیزوں اور پٹاخوں سے آنکھوں کو محفوظ رکھا جائے۔کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور صاف پانی سے آنکھوں کو دھوتے رہنا چاہیے۔ان سب باتوں کے خیال سے ہم اپنی آنکھوں کی بینائی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

سوال: مندرجہ ذیل اقتباس کی تشریح کیجئے۔

⭕️اقتباس: محمود بہت محنتی طالب علم ہے۔ ویسے تو اپنا ہوم ورک کسی سے لکھوا کر مجھے دکھا سکتا ہے، مگر وہ دوسروں کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا۔ وہ آج کل بڑی لگن سے ٹائپ سیکھنے میں لگا ہوا ہے۔ تاکہ وہ ہماری تحریر میں ہی ہوم ورک کر سکے اور امتحان دے سکے۔ رہی آنے جانے کی بات تو ایک بار تم لوگ اسے کلاس اور لائبریری وغیرہ کے راستے کو بتا دو گے تو پھر وہ اپنی سفید چھڑی کی مدد سے خود ہی راستہ ڈھونڈ لے گا۔

حوالہ: یہ اقتباس ہماری نصابی کتاب ”جان پہچان“ میں شامل ہے اور سبق مکالمہ “نئی روشنی” سے لیا گیا ہے۔

تشریح: محمود(اندھا طالب علم) بہت محنت کرنے والا طالب علم ہے، وہ چاہے تو اسکول میں ملنے والا گھر کا کام کسی دوسرے سے لکھوا کر بھی مجھے دکھا سکتا ہے۔ مگر وہ اندھا ہونے کے باوجود کسی دوسرے کی مدد لینا پسند نہیں کرتا۔ ماسٹر صاحب آگے کہتے ہیں کہ محمود آج کل بہت محنت اور دلچسپی کے ساتھ ٹائپ سیکھنے میں لگا ہوا ہے۔ تاکہ وہ ہماری لکھاوٹ میں گھر کا کام کر سکے اور اپنا امتحان بھی دے سکے۔ رہی آنے جانے کی بات تو یہ ہے کہ اگر تم محمود کو کلاسوں اور لائبریری (کتب خانہ) کا راستہ بتا دو گے تو وہ اپنی سفید چھڑی کی مدد سے خود ہی وہاں پہنچ جایا کرے گا۔

⭕️غور کیجئے۔

▪️ ہمارے جسم میں آنکھیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
▪️ہم ان آنکھوں کے ذریعہ ہر چیز دیکھ سکتے ہیں۔
▪️ہمارے جسم میں وٹامن اے کی کمی ہو جانے پر آنکھیں کمزور ہو سکتی ہے۔
▪️ہمیں آنکھوں کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے پھل اور ہری سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیئے۔

⭕️سوالات و جوابات:

سوال 1: کلاس میں بچے کس بات پر حیرت زدہ تھے؟

جواب : بچے اس بات پر حیرت کر رہے تھے کہ روز کی طرح کلاس میں شور نہیں ہے۔ اسلم اور جاوید کی بات بلکل صاف سنائی دے رہی ہے کہ کلاس میں ایسے لڑکے کو داخلہ ملا ہے جو اندھا ہے۔

سوال 2: بریل ایجاد کرنے والے کا نام کیا تھا؟

جواب : بریل ایجاد کرنے والے فرانس کے “لوئی بریل” تھے۔

سوال 3: بریل کے ذریعے پڑھائی کس طرح ہوتی ہے؟

جواب : ایک خاص آلے (بریل) کے ذریعے موٹے کاغذ پر حروف کو ابھارا جاتا ہے۔ جنہیں تھوڑی تربیب کے بعد انگلی سے چھو کر پڑھ سکتے ہیں۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں۔ جن کو کئی طرح سے ملا کر حروف ابھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔

سوال 4: لوگ سفید چھڑی کیوں رکھتے ہیں؟

جواب : سفید چھڑی اندھے لوگوں کی پہچان ہے۔ اسے دیکھ کر لوگ انہیں خود راستہ دے دیتے ہیں۔

سوال 5: آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

جواب : آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں ہری سبزیاں، گاجر، پھل، کدو وغیرہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجئے۔
موسیقار۔ حیرت زدہ۔ مقدار۔ وقفہ۔ اخبار نویس۔ عہدہ۔ آلہ

موسیقار: نوشاد بہت بڑے موسیقار تھے۔
حیرت زدہ: عجیب چیزوں کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔
مقدار: ہر چیز کی کوئی نا کوئی مقدار ہوتی ہے۔
وقفہ: مدرسے کے وقفہ میں ہم کھانا کھاتے ہیں۔
اخبار نویس : حسن کامیاب اخبار نویس ہے۔
عہدہ : محنت اور قابلیت سے اچھا عہدہ ملتا ہے۔
آلہ : ادیب کے لیے قلم سب سے بڑا آلہ ہے۔

⭕️ اسم کی تعریف کریں، اور سبق سے پانچ اسم تلاش کریں:

کسی بھی چیز کے نام کو اسم کہتے ہیں۔
اسکول۔ پیڑ۔ کلاس۔ اسلم۔ جاوید

⭕️خالی جگہوں کو بھریے۔

1▪️ان کے….. اسکول….. الگ ہوتے ہیں۔ (گھر/اسکول/ہاسٹل)
2▪️کم روشنی میں نہیں….. پڑھنا….. چاہیے۔ (سونا/کھانا/ پڑھنا)
3▪️ارے واہ، یہ تو بہت….. مزے دار….. بات ہوگی۔ ( خراب/مزے دار/بیکار)
4▪️ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمہاری آنکھیں….. محفوظ….. رہ سکتی ہیں۔ ( اچھی/ محفوظ/بہتر)

⭕️عملی کام:

بینائی کی حفاظت کس طرح کی جا سکتی ہے، اس پر پانچ جملے لکھیں؟

1▪️ہمیں کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہئے۔
2▪️پھل، ہری سبزیاں خوب کھانا چاہئے۔
3▪️گندگی اور گردو غبار سے بچنا چاہئے۔
4▪️آنکھوں کو صاف پانی سے دھونا چاہئے۔
5▪️ آنکھوں کو صاف ستھرے کپڑے سے صاف کرتے رہنا چاہتے۔

تحریر : ارمش علی خان محمودی بنت محمد طیب عزیز محمودی