آدمی کی کہانی، خلاصہ، سوالات و جوابات

0

آدمی کی کہانی کا خلاصہ

اس سبق میں انسانی ارتقاء کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ کئی ہزار برس پہلے یہ زمین آگ کا ایک گولا ہوا کرتی تھی۔ جو آج بھی دھکتے آتش فشاں کی طرح آگ اگل سکتی ہے۔زمین کے کھولتے پانی سے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ایسے کئی لاکھوں کروڑوں گولے آسمان میں موجود ہیں دوسرے آگ کے گولے جو ہماری زمین سے بڑے اور پرانے ہیں وہ آج بھی آگ ہی ہیں۔

بس ہماری زمین کی آگ پانی اور زمین میں بدل گئی۔نجانے کیوں مگر شاید یہی قسمت میں لکھا تھا۔ایک وقت آنے پر جب یہ دنیا سرد پڑی تو بھاپ اور دوسری گیسیں پانی میں تبدیل ہوئیں جبکہ ٹھوس حصہ چٹان بنا۔ نجانے یہ سب کتنے سال قبل ہوا مگر سائنس دان اس کی کھوج لگانے میں جتے ہیں۔

اس دنیا کے سرد پڑنے پر سمندر کی تہہ میں زندگی کا بیج پہنچا۔جس نے پھلنے پھولنے سے لاکھوں کروڑوں بھیس بدلے۔رفتہ رفتہ پودوں اور کیڑوں کی صورت میں اس زندگی نے زمین کی جانب قدم بڑھائے اور پانی کے بغیر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ کچھ کیڑے مچھلی بن کر تیرے تو کچھ زمین پر رینگنے اور کچھ چوپائے بن کر خشکی پر چلنے لگے۔

پانی اور خشکی کے کچھ جانوروں نے بہت بھیانک شکلیں پائی۔جیسے چالیس فٹ لمبے مگرمچھ ، بیس فٹ اونچے ہاتھی وغیرہ ۔کچھ جانور اتنے لمبے تھے کہ ہوا میں اڑتے پرندے کو پکڑ لیتے تھے۔ان جانوروں کو انہی کی طرح کے بھیانک نام جیسے کہ برنٹو سورس ، میگسلو سورس اور اگھتیو سورس وغیرہ جیسے نام دیے گئے۔یہ جانور بڑھتے بڑھتے بے ڈول ہوئے اور آخر کار ختم ہونے لگے۔

آج کل کے سائنس دانوں نے ان کی ہڈیوں پر تحقیق کرکے اندازہ لگایا کہ یہ ہماری دنیا کے جانور تھے۔خشکی پر ان جانوروں کی ایک نئی قسم سامنے آئی جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھی۔یہ جانور موسم کی سختی کو جھیلنے میں زیادہ سخت جان ثابت ہوئے۔ان میں سے بھی محض موسم کی سختی جھیلنے والے جانور زندہ رہ پائے۔

آخر موسم کی سختی سے ان کی جسمانی تبدیلی کا آغاز ہوا۔ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک ایسی قسم سامنے آئی جو آدمی سے مشابہت رکھتی تھی۔جنھیں ہم بن مانس کہہ سکتے ہیں۔ اس نے چار پیروں کی بجائے اگلے دو پیروں پر چلنا شروع کیا۔دو پیروں سے یہ پکڑنے اور بوجھ اٹھانے کا کام لینے لگے۔

رفتہ رفتہ ان کے یہ دو پیر پنجے کی شکل اختیار کر گئے۔ان کی زبان بھی کچھ کھلنے لگی۔ ہزار برس بعد جب اس دنیا کی آب و ہوا بدلی تو یہ زمین ٹھنڈی ہو کر برفستان میں بدل گئی۔ پھر گرمی بڑھی تو اس برفستان کو پکھلا کر سمندر میں بدلا جس سے زندگی کا ایک اور پھیر ابھرا۔

ایسا عمل چار مرتبہ ہوا اور ا س دوران زمین کے کئی سو گز نیچے سے ملنے والا مواد ہمیں ان پھیروں کی داستان سناتا ہے۔ سردی کے باعث ان بن مانسوں کی بھی محض ہڈیاں ملیں۔کروڑ یا لاکھ برس قبل زمین کی کیا صورت حال تھی معلوم نہیں۔ لیکن اس دوران انسان نے دوچار باتیں سیکھ لیں کہ جنگلوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آگ کیسے جلاتے ہیں۔

یوں اس سے یہ نہ صرف غاروں کو گرم رکھنے لگے بلکہ چند پھلوں اور چیزوں کو بھوننے بھی لگے۔ پتھروں کو گھس کر ان سے جلانے اور جھیلنے ،کاٹنے نے ان کی زندگی کچھ مزید آسان کر دی۔آج کے علم کے مطابق یہ انسان بن مانسوں کی اولاد ہے جو ترقی کرتے کرتے آدمی بن گیا۔ لیکن معلوم نہیں کہ بن مانسوں کی کس قسم سے ہمارا رشتہ ہے۔ کیونکہ ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی مثال ابھی تک ںہیں ملی ہے۔

⭕️ مندرجہ ذیل اقتباس کی تشریح کیجئے۔

اقتباس 1 :

آج کل کے عالم کہتے ہیں کہ ہماری دنیا پہلے آگ کا ایک گولہ تھا۔ اس آگ کا نہیں جو ہمارے گھروں میں جلتی ہے۔ یہ ایک اور ہی آگ تھی جو بھی جلاۓ جلی اور بن بجھائے بجھ گئی۔ یہ وہ چیز تھی جسے ہم بجلی کہتے ہیں۔ لیکن کبھی نہ کبھی دنیا آگ کا گولا تھی ضرور کیونکہ ہمیں ایسے ہی لاکھوں، کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اُگل دیتے ہیں یا زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔

حوالہ: یہ اقتباس ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے اور سبق مضمون “آدمی کی کہانی” سے لیا گیا ہے اس کے مصنف کا نام پروفیسر محمد مجیب ہے۔

تشریح : ہماری دنیا کے موجودہ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیا بہت پہلے ایک آپگ کا گولا تھی، مگر یہ ہماری دنیا کی یا ہمارے گھروں کی آگ نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسی قدرتی آگ تھی جو بِنا جلاۓ جلی تھی اور بِنا بجھاۓ بجھی تھی۔ ایک اندازہ کے مطابق یہ آگ دراصل بجلی تھی۔ پھر بھی یہ ضرور ہے کہ یہ دنیا آگ کا ہی گولا تھی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم ایسے ہی آ گ کے گولے لاکھوں کروڑوں آسان میں چکر کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور آج بھی ہماری زمین پر پہاڑ آگ برسا دیتے ہیں اور کبھی زمین کے اندر سے کھولتے پانی کا جھرنا ابل آتا ہے۔

⭕️ غور کیجئے:

اللہ نے دنیا بنانے میں بہت غور و فکر کیا ہے اور اس کو بنانے میں بہت وقت لگا ہے اور یہ ایک کے بعد ایک مرحلہ طے کرتے ہوئے تیار ہوئی ہے۔ یہ دنیا سبھی طرح کی مخلوقوں کے لیے ہیں۔ یہاں انسان بھی ہیں اور حیوان بھی ہیں اور سبھی کو یہاں پر رہنے اور جینے کا حق خدا کی طرف سے حاصل ہے۔

⭕️سوالات و جوابات

سوال 1 : زمین سے بڑے آگ کے گولے کون سے ہیں؟

جواب : زمین سے بڑے آگ کے گولے آسمان کے چکر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سوال 2 : زمین کی بناوٹ سے زمین کی عمر کا اندازہ کس طرح لگایا جاسکتا ہے؟

جواب : آج کے زمانے کے عالم (سائنسدان) زمین کی بناوٹ سے چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں کہ زمین کی عمر کیا ہے۔ لیکن یہ سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ بےچارے آدمی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا۔

سوال 3 : زمین پر مختلف جانوروں کی نشوونما کیسے ہوئی؟

جواب : زمین پر مختلف جانوروں کی نشونما کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلتے ہوئے ہو سکی۔

سوال 4 : دودھ پلانے والے جانور بڑے بڑے بے ڈول جانوروں سے زیادہ سخت جان کیوں نکلے؟

جواب : دودھ پلانے والے جانور بڑے بڑے بے ڈول جانوروں سے زیادہ سخت جان اس لیے نکلے کہ وہ شروع ہی سے دودھ پی کر پلے تھے، دودھ نے ان کو سخت جان بنا دیا تھا۔

سوال 5 : زمین کے برفستان بن جانے پر جانوروں کا کیا حال ہوا؟

جواب : زمین کے برفستان بن جانے پر برف کے کھسکتے اور پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔

سوال 6 : آگ جلانا سیکھنے کے بعد انسانی زندگی میں کیا تبدیلی ہوئی؟

جواب : آگ جلانا سیکھنے کے بعد انسانی زندگی میں یہ تبدیلی ہوئی کہ وہ اپنے رہنے کی جگہوں پر آگ جلا کر تواپنے لگے اور سردی سے بچنے لگے۔ جانوروں کا گوشت، کچھ پھل اور کچھ چیزیں بھون کر کھانے لگے۔ پتھروں کو گھس کر ان سے بھونکنے اور کاٹنے لگے اور اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ آسان کر دیا۔

⭕️ نیچے لکھے ہوئے محاوروں اور کہاوتوں کو جملوں میں استعمال کیجئے۔

کھوپڑی میں نہ سمانا ارمش علی کی بات مجید کی کھوپڑی میں نہ سمائی۔
بھیس بدلنا ضرورت کے مطابق بھیس بدلتے رہنا چاہیۓ۔
ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہونا پارٹی کوئی بھی ہو مگر سارے نیتا ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔

⭕️ پروفیسر محمد مجیب کی حالات زندگی تحریر کیجئے۔

پروفیسر محمد مجیب 1902ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کر کے انگلینڈ میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ لندن میں انھوں نے فرانسیسی اور لاطینی زبانوں کا علم حاصل کیا۔ اور جرمنی جاکر جرمنی زبان بھی سیکھی۔ وطن واپس آکر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد مقرر ہو گئے۔ اور 1948ء میں شیخ الجامعہ بن گئے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان کو باغبانی سے بہت دلچسپی تھی۔ تاریخ میں ان کو مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے کئی اعلیٰ درجے کی کتابیں لکھی ہیں۔ شعر و ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ انہوں نے کئی مشہور ڈرامے لکھے ہیں اور کئی افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کی علمی ادبی اور قومی خدمات کے پیشِ نظر ہندوستانی حکومت نے ان کو پدم بھوشن کا خطاب عطا کیا ہے۔ 1985ء میں ان کا انتقال ہوا۔

تحریر 🔘 ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی🔘