غزل: ہستی اپنی حباب کی سی ہے کی تشریح

0

غزل کی تعریف کیجئے۔

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ فارسی اور اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس غزل کے لفظی معنی ہیں عورتوں سے بات کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا، یا عشق و محبت کا اظہار کرنا۔

غزل عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی۔ عام طور پر لفظ کے معنی کے لحاظ سے اس میں عورت کی حسن و جمال کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور اس سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر اپنے ابتدائی دور سے گزرنے کے بعد غزل میں کئی تبدیلیاں آئیں اور اس میں بہت وُسعت پیدا ہوگئی اس طرح غزل اس لائق بن گئی کہ اس میں حیات و کائنات کے تعلق سے ہر قسم کا مضمون بیان کیا جا سکتا ہے۔

غزل میں عام طور پر پہلا شعرمطلع ہوتا ہے۔ مطلع اس شعر کو کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ ہوتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیادہ مطلب بھی ہو سکتے ہیں۔ مطلع کے بعد شعر ہوتا ہے جس کا پہلا مصرعہ قافیہ سے خالی ہوتا ہے اور دوسرے مصرعے میں قافیہ ہوتا ہے۔

غزل میں شعروں کی تعداد کی پابندی نہیں ہے اور ہر شعر اپنا ایک خاص مضمون رکھتا ہے۔ اور اس کا دوسرے شعر کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شاعر اپنا ایک شاعرانہ نام رکھتا ہے اسے تخلص کہتے ہیں۔ اور عام طور پر غزل کے آخری شعر میں تخلص استعمال ہوتا ہے، اس شعر کو مقطع کہتے ہیں۔ غزل میں قافیہ کے بعد ردیف نہ ہو تو اسے غیر مردف اور ردیف ہو تو اسے مردف غزل کہتے ہیں۔

غزل: ہستی اپنی حباب کی سی ہے کی تشریح▪️

شعر 1 :

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

حوالہ:یہ غزل ہماری کتاب میں شامل ہے اور اس کے شاعر کا نام میر تقی میر ہے۔

تشریح : میر اپنے غزل کے اس مطلع میں کہتے ہیں کہ ہماری زندگی یا ہماری ہستی ایک پانی کا بلبلہ ہے اور اس کا دکھاوا پانی کے دھوکے (سراب) کی طرح ہے جو دور سے نظر آتا ہے اور نزدیک جاتے جاتے غائب ہو جاتا ہے۔

شعر 2 :

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

تشریح : میر اپنے اس شعر میں کہتے ہیں کہ میرے محبوب کے ہونٹ کی نزاکت کچھ ایسی ہے جیسے گلاب کی پنکھڑی میں نزاکت ہوتی ہے۔

شعر 3 :

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

تشریح : میر اپنے اس شعر میں کہتے ہیں کہ محبوب کی محبت میں میری بے قراری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ میں بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں، آ جاتا ہوں پھر جاتا ہوں اور آ جاتا ہوں، مگر میری بے چینی اور بے قراری ختم ہی نہیں ہوتی۔

شعر 4 :

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

تشریح : میر کہتے ہیں کہ جب میں بولا تو میرے محبوب نے میری آواز سن کر یہ کہا کہ یہ آواز تو اسی برباد بدقسمت عاشق میر کی آواز ہے۔

شعر 5 :

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

تشریح : میر غزل کے آخری شعر مقطع میں کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں میں جو مستی دکھائی دیتی ہے وہ سراسر شراب کی مستی کی طرح ہیں۔

⭕️ غور کیجئے۔

  • 1 : شاعر اپنا ایک شاعرانہ نام رکھتا ہے اسے تخلص کہتے ہیں اور اس تخلص کا استعمال عام طور پر شاعر غزل کے آخری شعر میں کرتا ہے اس شعر کو مقطع کہتے ہیں۔
  • 2 : جب ہم دھوپ کے عالم میں سفر کرتے ہیں اگر راستہ ریتیلا ہے تو دور پانی چمکتا صاحب محسوس ہوتا ہے مگر نزدیک جاکر کچھ نظر نہیں آتا وہ دور سے نظر آنے والا پانی سراب یعنی دھوکا کہلاتا ہے، اب تو ڈامر سے بنی سڑکوں پر بھی دور سے دھوپ میں چمکتا ہوا پانی نظر آتا ہے جبکہ پانی نہیں ہوتا وہ بھی سراب یعنی دھوکا ہوتا ہے۔
  • 3 : شاعری میں ایک صنعت کا نام تشبیہ ہے اور تشبیہ اس صنعت کو کہتے ہیں کہ شاعر کسی چیز کو دوسری چیز سے مثال دے کر پیش کرتا ہے۔ وہ مثال اچھائی اور برائی دونوں میں ہو سکتی ہے۔ اس غزل۔ کے دوسرے شعر میں شاعر نے محبوب کے ہونٹوں کی نزاکت کو گلاب کی پنکھڑی سے مثال دی ہے۔

سوالات و جوابات▪️

سوال 1 : انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟

جواب : میر تقی میر کے شعر میں انسانی زندگی کو پانی کا بلبلا بتایا ہے اور اس کی نمائش کو پانی کا دھوکہ یعنی سراب بتایا گیا ہے۔ یہی انسانی زندگی کی حقیقت ہے

سوال 2 : بے چینی کے عالم میں شاعر پر کیا بیت رہی ہے؟

جواب : بے چینی کے عالم میں شاعر بار بار اپنے محبوب کے دروازے پر جاتا ہے اور آجاتا ہے، یعنی اس کی بے چینی اور بےقراری برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔

سوال 3 : شعر میں خانہ خراب کسے کہا گیا ہے؟

جواب : شعر میں خانہ خراب شاعر (میر تقی میر) کو کہا گیا ہے۔

⭕️ عملی کام:

قواعد کے مطابق کسی بھی طرح کے نام کو اسم کہتے ہیں۔میر نے اپنی اس غزل میں جتنے اسم استمال کیے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ہستی، حباب، سراب، لب، پنکھڑی، گلاب، در، آواز، خانہ خراب، میر، آنکھیں، شراب

⭕️ میر کے کچھ اور اشعار یاد کیجئے۔

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئی دل نے آخر کام تمام کیا
ہمارے آگے تیرا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

⭕️ میر تقی میر کی حالات زندگی۔

  • اصل نام : محمد تقی
  • تخلص : میر
  • والد : محمد علی
  • پیدائش : 1722ء کو اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوے۔
  • وفات : 1810ء لکھنؤ میں انتقال ہوا۔
  • میر تقی میر 1722ء اکبرآباد آگرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوگیا۔ میر دہلی آکر رہنے لگے دہلی کے حالات خراب ہوئے تو وہ روٹی روزی کے لیے لکھنؤ چلے گئے پھر باقی زندگی لکھنؤ میں ہی گزاری اور انتقال بھی لکھنؤ میں ہوا۔

میر کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے اردو غزل کی خوبصورتی اور اہمیت کو بہت بلند کیا ہے۔ میر کو خدائے سخن، امام غزل، غزل کا بادشاہ اور اردو غزل کا سب سے اچھا شاعر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے سیدھی سادی اور خوبصورت زبان میں غزلیں لکھی ہیں۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بڑی بڑی باتیں کی ہیں۔

میر کی زندگی زیادہ تر درد و غم کے عالم میں گزری۔ وہ سارے درد و غم ان کی غزلوں میں صاف صاف نظر آتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ میر کی غزلیں میر کی آپ بیتی ہیں میر نے کئی اصناف میں شاعری کی ہے، مگر سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت غزل میں حاصل ہوئی۔ ان کا انتقال 1810 عیسوی میں ہوا۔

تحریر 🔺ارمش علی خان محمودی🔺