Advertisement
Advertisement

مسمط عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں پروئی ہوئی اور جڑی ہوئی چیز۔مسمط صنائع لفظی بھی ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ جب شاعر کسی شعر میں اصل قافیے کے علاوہ تین مسجع یا ہموزن فقرے یا قافیے مزید نظم کرے تو اسے صنعت مسمط کہتے ہیں۔

Advertisement

اصطلاح شعر میں اس سے مراد وہ نظم ہے جس کا ہر بند ایک مقررہ تعداد کے مصرعوں پر مشتمل ہو۔ایک بند میں تین مصرعوں سے لیکر دس مصرعوں تک ہوسکتے ہیں۔ اس طرح مصرعوں کی گنتی کے لحاظ سے مسمط کی آٹھ قسمیں بنتی ہیں۔جن میں چار قسمیں مثلث، مربع، مخمس اور مسدس عام طور پر مشتمل ہیں۔یعنی جن کا ہر بند بالترتیب تین، چار، پانچ اور چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور نظم ‘مدوجزراسلام’مسدس میں ہے جو ‘مسدس حالی’ کے نام سے موسوم ہے۔اسی طرح ڈاکٹر اقبال کی شہرہ آفاق نظم “شکوہ اور جواب شکوہ” بھی مسدس ہئیت میں ہیں۔ بیشتر مرثیے بھی اسی ہئیت میں لکھے گئے ہیں۔جواب شکوہ کے اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

Advertisement
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا

یا

مسمط کی تعریف

لفظی معنی’’ پروئے ہوئے موتی‘‘ اصطلاحاً (1) مثلث، مربع مخمس یا مسدس بندوں پر مشتمل نظم جس کے پہلے بند کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور دوسرے بند کے آخری مصرعے میں پہلے بند کا قافیہ نظم کیا جاتا ہے یعنی نظم مثلث ( تین مصرعوں کے بند والی ) ہو تو پہلا بند ۱۱۱، دوسراب ب ا اور تیسرا ج ج ب قافیوں میں ہوتا ہے۔ (2) ایک لفظی صفت جس کی رو سے شعر میں (اصل قافیے کے علاوہ) تین مسجع یا ہم وزن فقرے یا قافیے مز یدنظم کیے جاتے ہیں مثلاً:

Advertisement
سنبھل، ایسے غرور میں ہے یہ خلل کہ گرے نہ الجھ کہیں منہ کے ہی بل
بس ، اب اس سے بھی آگے تو بڑھ کے نہ چل، تجھے رفعت عرش علا کی قسم
(انشا)
جب وہ روز جمال دلفروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں
(غالب)

پہلے شعر میں خلل، بل ، چل اور دوسرے شعر میں فروز ، روز ، سوز قافیے مسمط کی صفت پیدا کرتے ہیں۔

Advertisement