اکبر الہ آبادی کی نظم نگاری | Akbar Allahabadi Ki Nazm Nigari

0

اکبر نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ شاعری میں اکبر کے استاد وحید الدین وحید اللہ بادی تھے۔ ان کا سلسلہ بشیر علی بشیر کڑوی سے ہوتے ہوئے آتش اور مصحفی تک پہنچتا ہے۔ اکبر کی ابتدائی دور کی شاعری میں وحید الہ آبادی کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔

اکبر کی شاعری کا پہلا دور روایتی شاعری کا دور تھا جس میں عشقیہ مضامین کی کثرت نظر آتی ہے۔ اس دور میں بھی اکبر اپنے انداز اور اعتبار سے منفرد نظر آتے ہیں۔ غزل کی پہچان عشقیہ مضامین میں ضرور ہے لیکن اکبر کی شاعری میں حسن و عشق معاملات کا وہ ذکر نہیں ملتا ہے جو کلاسیکی شاعری میں نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر اکبر کا محبوب خیالی نہیں ہے بلکہ انسانی اور حقیقی ہے۔ اس کی جفا و وفا کا انداز بھی جداگانہ ہے۔ اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

محبت کر کے ان سے پھنس گئے ہیں ہم تو آفت میں
نہ دل قابو میں آتا ہے نہ ان پر زور چلتا ہے
ادھر ہم سے بھی باتیں آپ کرتے ہیں لگاوٹ کی
ادھر غیروں سے بھی کچھ عہدوپیماں ہوتے جاتے ہیں

اس کے علاوہ اس دور میں ہمیں تصوف اور اخلاق سیاسی شعور سے متعلق اشعار بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہوں:

ہم نے مخلوق میں ھلک کی تجلی پائی
دیکھ لی آئینہ میں آئینہ گر کی صورت
خدا کا گھر بنانا ہے تو لے نقشہ کسی دل کا
دیواروں کی کیا تجویز ہے واعظ یہ چھت کیسی
حباب آسا اٹھایا بحر ہستی میں جو سر اپنا
بنایا بس وہی موج فنا نے ہم سفر اپنا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

لیکن رفتہ رفتہ اکبر کا ذہن پختہ ہوتا گیا اور وہ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہے تھے۔ اس دور میں ادب اور سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کے اثرات اکبر پر بھی پڑے لہٰذا انہوں نے ان تبدیلیوں کو تسلیم کیا اور ساتھ ہی اپنی شاعری کا رخ بھی بدل دیا:

غزل ایسی پڑھو مملو جو ہو اعلیٰ مضامیں سے
کرو اب دوسرے کوچے میں اے اکبر گزر اپنا

اکبر کی شاعری کا دوسرا دور زریں دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں ملک کی سیاسی و سماجی حالات کے پیش نظر اکبر کی شاعری کا رنگ نکھر کر سامنے آیا۔ اس دور سے ہی اکبر کی شاعری میں ہمیں طنز و مزاح کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جو شاعری کے آخری دور تک غالب نظر آتا ہے۔

1877ء میں اودھ پنچ کے اجرا نے اکبر کے اس جذبہ کو بروئے کار لانے کا کام کیا۔ اکبر کے عہد میں ہندوستانی تہذیب و معاشرہ بحرانی تنزلی کے دور سے گزر رہا تھا۔ غیر ملکی تہذیب وطن پر حاوی ہوتی جا رہی تھی لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اس طلسم کو توڑنے کی کوشش کی۔

اس دور میں اکبر کی شاعری کے موضوعات کے بارے میں مغربی تہذیب کے نقائص کی نشاندہی اور اس کے مقلدوں کی تضحیک، غلط طرز فکر، مذہب سے بیگانگی، عقائد میں تبدیلی، آزادی نسواں، تحریک سے سید کی مخالفت اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے برے نتائج سے آگاہ کرنا۔

اس کے لئے سب سے بہترین ذریعہ طنزومزاح تھا۔ لہٰذا انہوں نے یہی رنگ اختیار کیا۔ طنز وہ مرکب جذبہ ہے جس میں محبت کا سوز، ناکام خواہشوں کی تلخی، مایوسی اور غم و غصہ، نفرت اور حقارت یا بے انصافی، بے اعتدالی یا بدنمائی کو دور کرنے کی خواہش یا آرزو ہو۔

مزاح کا سبب وہ احساس جو بے ترتیب یا بے ہنگم، بھونڈے اور غیر متوازن رویے، شخص یا منظر کو دیکھ کر محسوس ہو اور جس کے سبب مزاح نگار ہنستا ہے اور اپنے ساتھ اس خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے۔

تبدیلی قدرت کا قانون ہے لیکن ایک وقت کے بعد فطری طور پر چیزوں میں تبدیلی کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ اکبر کا دور بھی تبدیلیوں کا دور تھا۔ اکبر تبدیلی اور ترقی کے مخالف نہیں تھے وہ اس بدلتی ہوئی تہذیب کے مخالف تھے جو اپنی اصل سے دور لے جاتی ہے اور مذہب سے لاتعلقی کا سبب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مذہب چھوڑو، ملت چھوڑو، صورت بدلو عمر گنواؤ
صرف کلرکی کی امید اور اتنی مصیبت توبہ توبہ
شوق لیلائے سول سروس نے اس مجنون کو
اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو

اکبر نے سر سید تحریک کو خاص طور پر اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ سرسید چونکہ جدت پسند تھے اور ملک و قوم کو مصلحتاً ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ انگریزی تہذیب کو اختیار کریں اور مذہب کا قوم کی صف میں شامل ہوں۔

اکبر اس تبدیلی کے مخالف تھے۔ وہ تہذیب و مذہبی عقائد میں تحریف کے قائل نہ تھے۔ ان کو مشرقی تہذیب اور ہندوستانی روایت سے عشق تھا۔ سرسید کی فکر اور ان کے طرز تعلیم کے مخالف پر مبنی چند اشعار ملاحظہ ہوں:

نظر ان کی رہی کالج کے بس علمی فوائد پر
گرا کیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر

سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
چرچا ہے جا بہ جا تیرے حال تباہ کا

سمجھا ہے تو نے نیچر و تدبیر کو خدا
دل میں ذرا اثر نہ رہا لا الہ کا

میں تجھ سے ترک صوم و صلوۃ زکوۃ حج
کچھ ڈر نہیں جناب رسالت پناہ کا

شیطان نے دکھا کے جمال عروس دہر
بندہ بنا دیا تجھے حب جاہ کا

اس نے دیا جواب کہ مذہب ہو یا رواج
راحت میں جو مخل ہو وہ کانٹا ہے راہ کا

یورپ کا پیش آئے اگر آپ کو سفر
گزرے نظر سے حال رعایا و شاہ کا

دعوت کسی امیر کے گھر میں ہو آپ کی
کم سن مسوں سے ذکر ہو الفت کا چاہ کا

مغربی تہذیب کے غلبے حاکم وقت کی طرز معاشرت کی تقلید اور مذہب بننے کے ساتھ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کا مسئلہ بھی اٹھا۔ اکبر اس کے شدید مخالف تھے۔ وہ اس تبدیلی کو قوم کے حق میں مضر خیال کرتے تھے۔ بے پردگی آج بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اکبر نہیں چاہتے تھے ہمارے ملک کی عورتیں بے پردہ رہیں تعلیم حاصل کرنے کی دوڑ میں اپنی تہذیب کو طاق پر رکھ دے اور آزادی سے کلبوں اور پارٹیوں میں جائیں۔اس سلسلے میں مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

پردہ اٹھ جانے سے اخلاقی ترقی قوم کی
جو سمجھتے ہیں یقیناً عقل سے فارغ ہیں ہو
سن چکا ہوں میں کہ کچھ بوڑھے بھی ہیں اس میں شریک
یہ اگر سچ ہے تو بے شک پیر نابالغ ہیں وہ
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

اکبر کی شاعری فکر و فن کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اکبر کا تعلق چونکہ کلاسیکی شاعری سے تھا۔ جیسا کہ اکبر کی شاعری کا نسب مصحفی سے ملتا ہے۔ لہذا اکبر نے بھی اس شجرہ کی لاج رکھی اور اپنی شاعری میں فن کے اعلیٰ نمونے پیش کیے۔ چند مثالیں پیش ہیں:

تشبیہ

داغ ہائے سینہ گل ہیں آہ سرد اپنی نسیم
گلشن ہستی میں کیا اچھی ہوا کھاتا ہے دل

رعایت لفظی

رسائی زلف نے پائی قدم تک اب وہ کیوں آئیں
بہانہ خوب ہاتھ آیا کہ پابند سلاسل ہوں

روزمرہ محاورہ

تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو دیکھا دیکھا
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے باخدا ہونا
Hina Maheen written by