افضل جھنجھانوی | Afzal Jhanjhanvi In Urdu

0

اردو ادب میں افضل جھنجھانوی نے اپنی مثنوی “بکٹ کہانی” کے ذریعے ایک نئی صنف کا آغاز کیا جسے “بارہ ماسہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ افضل جھنجانوی کون تھے اور کہاں پیدا ہوئے اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔افضل کا ذکر سب سے پہلے قیام الدین قائم نے اپنے”مخزن نکات”میں کیا تھا اور انہیں دیار مشرق کا ساکن بتاتے ہوئے اپنی بات ختم کر دی تھی۔

یہی حال میر تقی میر کا رہا۔ انہوں نے اپنی تصنیف “نکات الشعراء” میں ان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ قائم کے بعد اسپرنگس نے شاہان اودھ کی کتب کی فہرست شائع کی تو اس نے افضل کا مختصر ذکر کرتے ہوئے صرف اتنا لکھ دیا کہ وہ میرٹھ کے قریبی گاؤں جھنجھانہ کے رہنے والے تھے۔ وہیں پروفیسر مسعود حسین خان کے مطابق افضل پانی پت کے رہنے والے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کو لے کر ادبی حلقوں میں ایک اختلاف پیدا ہوگیا۔

والہ نے افضل کو پانی پتی بتایا ہے۔ ان کے قول کے مطابق وہ نہ صرف ہندی اور فارسی کے باکمال شاعر تھے بلکہ فارسی نثر لکھنے پر بھی یکساں قدرت رکھتے تھے۔ معلمی ان کا پیشہ تھا اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مجمع کثیر ان کے حلقۂ درس میں شامل ہوتا تھا۔

افضل کہاں پیدا ہوئے اس پر بحث ہوچکی لیکن یہ بات طے ہے کہ اردو ادب میں سب سے پہلے “بارہ ماسہ” کی صنف کا آغاز افضل کی “بکٹ کہانی” کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ میر حسن کے مطابق ان کی مثنوی “بکٹ کہانی” کو کافی شہرتیں حاصل ہوئیں۔ حالات تو یہاں تک پہنچ گئے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی اس مثنوی کے اشعار کو زبانی یاد کر لیا۔

افضل ہندی زبان کے بھی بڑے ماہر تھے اور انہوں نے ہندی زبان میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ ان کی ہندی شاعری اب موجود نہیں ہے۔

مولانا افضل ایک عالم بھی تھے لیکن ایک حادثے نے ان کی زندگی کو بدل دیا اور وہ شاعری کی نشستیں قائم کرنے لگے۔ہوا یوں کہ انہیں ایک ہندو لڑکی سے عشق ہو گیا اور اس عشق کی وجہ سے زہدوتقوی کو خیر آباد کہا اور وارفتگی کے عالم میں عاشقانہ غزل لکھنے لگے جن میں سے ایک غزل کا مطلع یہ ہے:؀

عالم خراب حسن قیامت نشان کست
دور کدام فتنہ گراں است زمان کست

مولانا افضل کی یہ کیفیت دیکھ کر وہ عورت بےعزتی کے ڈر سے شہر متھرا جا بسی۔ مولانا کچھ عرصے تک سر ٹکراتے رہے اور بالآخر پتہ حاصل کرکے اس کے شہر پہنچ گئے۔ وہاں ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ وہ لڑکی بخوشی ایک باغ میں سیر کر رہی ہے۔ افضل بے اختیار اس کی جانب بڑھے اور حسب حال یہ شعر پڑھا:؀

خوشا رسوائی و حال تبا ہے
سر را ہے و آہے و نگا ہے

مولانا کی یہ بے موقع کہی ہوئی بات لڑکی کو بہت بری لگی اور اس نے ان سے کہا آپ کو شرم نہیں آتی آپ کی داڑھی سفید ہو رہی ہے اور آپ اظہار محبت کر رہے ہیں۔ لڑکی کی اس بات کو سن کر مولانا نے اپنا حلیہ بدل دیا اور داڑھی منڈواکر زنار پہنا اور مندر کے ایک پجاری کی صحبت اختیار کر لی۔

جب پجاری کی وفات ہو گئی افضل اس مندر کے پجاری مقرر ہوئے۔ اتفاق سے ایک دن وہی لڑکی مندر میں تشریف لاتی ہے اور جب وہ پجاری کے پاؤں چھونے کے لئے ہاتھ نیچے لاتی ہے افضل اس کے ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگا لیتے ہیں۔ اس پر وہ لڑکی انہیں پہچان لیتی ہے اور حیران رہ جاتی ہے کہ اس کے عشق میں وہ مندر کے پجاری بن گئے۔بالآخر وہ لڑکی مسلمان ہو جاتی ہے اور افضل بھی اسلامی ماحول میں آکر اس سے شادی کر لیتے ہیں اور باقی کی زندگی بخوشی گزارتے ہیں۔