سید ذوالفقار علی نقوی

0

حالات زندگی

سید ذوالفقار علی نقوی 10جون 1965 کو ضلع پونچھ تحصیل مہنڈر گاؤں گورسائی میں پیدا ہوئے۔ آزادی کے بعد پروان چڑھنے والی سادات گورسائی کی نئی نسل علمی، ادبی اور دینی اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے۔ دینی گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے قرآن، فقہ اسلام اور تاریخ اسلام کے صحیح تناظر میں مطالعے نے سید ذوالفقار نقوی کو فلک سیر رس اور ذہن رسا بخشا۔ ضلع پونچھ میں بالعموم اور گورسائی میں بالخصوص نئی نسل دینی اور مسلکی مجالس کو اپنی تربیت گاہ کے طور سنجیدگی سے لیتی رہی ہے۔ ان مجالس میں علماء دین اور شاعر اہلبیت تشریف لاتے رہے اور اپنے موضوعات کے علاوہ معیاری شاعری میں ائمہ معصومین اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ نقوی صاحب نے ان شعرائے کلام سے تحریک پائی اور یوں ان کا شعری سفر شروع ہوا۔ چونکہ نقوی صاحب پیدائشی طور پر ایک ذہین شخص ہیں اس لئے انہوں نے جلد اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہا منوا لیا۔

سید ذوالفقار علی نقوی نے 1992 میں جموں یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوئے اور 1992 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد ڈگری کالج پونچھ میں عارضی طور پر لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانے لگے۔ اسی دوران جموں یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور آل انڈیا ریڈیو ان سے بھی وابستہ رہے۔ آخر کار 2004 میں سید ذوالفقار نقوی اپنی محنت کے بل بوتے پر پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچر تعینات ہوئے۔ ملازمت کے دوران ہی انہوں نے ادبی دنیا کی بے حد مقبول اور مشہور صنف شاعری میں قدم رکھا اور اپنی شاعری کے ذریعے ضلع پونچھ میں بہت جلد مقبول عام ہوئے۔

شاعرانہ عظمت

انگریزی شاعری میں اپنی عظمت کا لوہا منوانے والے شاعر ذوالفقار نقوی اردو شاعری میں بھی برابر دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت فراق گورکھپوری اور فیض احمد فیض سے ملتی ہے جو انگریزی کے لیکچرر ہیں مگر اردو شاعری کی دنیا میں دور حاضر کے جگمگاتے ستارے ہیں۔ اردو میں ان کا پہلا مجموعہ ” زاد سفر“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ ”اجالوں کا سفر“ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ان مجموعوں میں ان کا 1987 سے 2012 تک کا کلام شامل ہے۔ ” زادِ سفر“ عباس بک ایجنسی لکھنؤ سے شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ کلام ”اجالوں کا سفر“ 2013 میں اردو فاؤنڈیشن ممبئی سے شائع ہوا ہے۔ 2012 سے اب تک کا کلام ان کے مجموعہ کلام ”دشتِ وحشت“ میں شامل ہے جس میں ایک سو سے زائد غزلیں شامل ہیں جو بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ”نعتیہ مجموعہ“ کے نام سے ایک اور مجموعہ کلام منظر عام پر آنے والا ہے۔

ذوالفقار نقوی کے کلام میں مناقبت، سماجی رشتوں، انسانیت ہمدردی اور بلندیوں کو چھو جانے والا احساس موجود ہے۔ وہ اپنے تصور اور احساس کو اس طرح لفظ و سے شاعری میں ترتیب دیتے ہیں کہ عام آدمی کے ذہن میں ان کی بات نقش کر جاتی ہے۔ ان کا کلام دنیا کے مختلف اور بڑے بڑے رسالوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے اسی لئے انہیں عالمی شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے:

بے چینی کے لمحے سانسیں پتھر کی
صدیوں کے جیسے دن ہیں راتیں پتھر کی

پتھرائی سی آنکھیں چہرے پتھر کے
ہم نے دیکھیں کتنی شکلیں پتھر کی

آؤ مل کر ان میں ڈھونڈے آدم ذات
چلتی پھرتی جو ہیں لاشیں پتھر کی

ایک اچھے سیدھے سادھے انسان اور سچے مسلمان کی طرح وہ تشکیک کے بجائے یقین کے ذریعے اپنی شاعری کا تانا بانا بنتے ہیں اور اسی کو سرمایہ حیات بھی سمجھتے ہیں۔ نقوی صاحب اپنی خود داری پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور اس سودے میں سود و زیاں سے یہ کہہ کر اپنا دامن چھوڑا لیتے ہیں کہ؀

آتا ہو جس سے حرف تیری آن بان پر
بہتر ہے خاک ڈالے ایسی اڑان پر

پھر زندگی کو پھولوں کے بیج نہیں کانٹوں کا تاج مان کر بھی جنے جانے کی ہمت و حوصلہ۔ اللہ رے یہ استقلال و استقامت کہ؀

زندگی میں حزن و غم کے آئے کتنے کوہسار
عزم و استقلال میرے نے مگر مانی نہ ہار

ہماری زندگی میں بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ خواہشات کی زیادتی ہے۔ اس حقیقت کو نقوی صاحب نے بڑی خوبصورتی سے شعر میں پیش کیا ہے؀

تمناؤں کا نقوی سر کچل دو
جو پالو گے تو برسے گی تمہیں پر

کتنی آسانی سے کتنی بڑی بات کہہ دی انھوں نے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہی تو سب سے دشوار مرحلہ ہے، یہی تو ہو نہیں پاتا اور جو کر گزرتے ہیں وہی زندگی کرتے ہیں، مکمل اعتماد اور وقار کے ساتھ۔ ذوالفقار نقوی کے یہاں بیشتر اشعار کچھ اس طرح اور ایسے انداز سے وارد ہوئے ہیں کہ وہ ان کے اندرونی جذبات معلوم ہوتے ہیں شعر دیکھئے؀

آئینہ در آئینہ روند گیا تصویر سے
عکس ایک الجھا ہوا تھا خواب کی تعبیر سے

ان کی شاعری میں سنگلاخ حقیقتوں کے ساتھ ساتھ رومانویت کی نرم رو لہریں بھی محسوس کی جاسکتی ہیں لیکن ان کی رومانیت بھی در اصل حقائق کی کوکھ سے جنم لینے والے نوجوانوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے انہوں نے دیگر شعراء کی زمینوں میں بھی بہت اشعار نکالے ہیں۔

میرے ہاتھوں کی لکیروں میں بھنور لکھا ہے
ورنہ ممکن تھا میرے قدموں میں ساحل ہوتا

کسی زوال پذیر معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ کسی کے لیے کچھ کریں تو جتلائے بغیر نہیں رہتے۔ ایسے میں جس کی مدد کی گئی ہوتی ہے وہ ناقابل بیان اذیت میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ہی کرم فرماؤں کے اس منفی رویے سے تنگ آکر نقوی صاحب لکھتے ہیں؀

ہم گرے اور گر کے اٹھنا بھی گئے
تجھ سے کس نے کہا سنبھال ہمیں

نقوی صاحب کے پہلے اور دوسرے مجموعے میں مقصدیت کی مماثلت عیاں ہے۔ زادِ سفر، اجالوں سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے اور وہ بھی تب جب فرد سے سماج تک سبھی اندھیروں کے مسافر بنے ہوئے ہوں اجالوں کے سفر کی جانب مراجعت اور رغبت گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات کا موجب بن سکتی ہے۔ اس لیے نقوی صاحب بجا فرماتے ہیں کہ:

اجالوں کی سوداگری کا چلن ہے
اندھیروں کو اپنے یہاں بیچ آئیں

اجالے پھر اڑانیں بھر رہے ہیں
کوئی خورشید ٹوٹا ہے ہمیں پر

نقوی صاحب کا کلام سوز جگر کا وسیع پہلو لیے ہوئے ہے۔ وہ دعائیہ کلمات میں ہی اپنی مرادوں کی منزل کی نشاندہی کر جاتے ہیں؀

کر عطا پاک سخن، پاک نظر، دل طاہر
میرے احساس کی دنیا کو مدینہ دے دے

غزل کا کینوس اب اتنا وسیع ہے کہ اس کی تنگنائی کے شکوے کے دن چلے گئے ہیں۔ اب شاعر کوٹھے سے اترتا اور مے کے مٹکے سے نکلتا ہے بلکہ وہ محبت کے فطری جذبے سے بھی یہ کہہ کر بغاوت کرتا ہے کہ۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

اور یوں وہ کوئے یار سے سوئے یار تک چل نکلتا ہے لیکن اس کے باوجود غزل میں نقوی صاحب کی یہ منظر کشی دل موہ لیتی ہے؀

حنائی ہاتھ آنچل سے نکل کر
انہیں آداب محفل دے رہے ہیں

تیرے دو شوخ اور گستاخ گیسو
رخِ روشن کے بوسے لے رہے ہیں

نقوی صاحب نے غزل کو نئی جہت بخشی ہے۔ جس کی اثر آفرینی اور جس کی کسک دل میں اترنے والے رگ و پے کو چھونے والے اثرات کا کام کر جاتی ہے؀

کوبہ کو صحرا بصحرا ہمسفر تھا اضطراب
ایک نیا محشر، نیا ایک حادثہ ہونا ہی تھا

شاعری کے لئے علم عروض کی بحروں کی غلامی لازمی ہے اور نقادان فن اس میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر شاعری جزبوں کے اخلاص اور غنائیت کے آہنگ کا نام ہے اور اگر شاعری آمد ہے تو پھر نقوی صاحب نے اس مجموعہ کی ساری غزلیں کسی جذبے کے تحت ہی لکھی ہیں۔ اس لئے ان کے اشعار دل سے نکلے ہوئے اور دل میں اترتے ہوئے لگتے ہیں۔

اخلاص ہو جس میں جذبوں کا آہنگ ہو جس میں نغموں کا
لفظوں سے بنی وہ من موہنی تصویریں زندہ رہتی ہیں

ذوالفقار نقوی کی شاعری کی لفظیات اور اس کا فریم ورک کچھ اس طرح کا ہے کہ ہمارا ذہن کلاسکیت کی طرف لے جاتا ہے۔ مگر اپنی بنت اور موضوعات کے سبب یہ شاعری اپنے عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کے اپنے کچھ درد ہیں اور کچھ ایسی اقدار ہیں جن کے پامال ہونے کا انہیں خوف ہے۔

پرانے غم میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں
در و دیوار پر کچھ عکس نادیدہ سجاتا ہوں

پرانی روایتوں کے امین اور بڑا خاندانی پس منظر رکھنے والوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اپنے ہم عصروں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی تو وہ اپنے ماضی میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کا یہ عمل ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ماضی میں رہ کر مستقبل کے خواب دیکھنے کی یہ بیماری ذوالفقار نقوی کو بھی ہے جس کا پرتو کار بیکاری کی صورت میں ان کی شاعری پر صاف دکھائی دیتا ہے۔

عمر بھر تعمیر میں کرتا رہا
بن نہ پائے ریت کے در و دیوار

ذوالفقار نقوی کی شاعری جذبات اور احساسات سے زیادہ فکر و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی شاعری کا غالب عنصر فکر کا ہی ہے۔ان کے اشعار قاری کو کسی کیفیت میں فوری طور پر اسیر نہیں کرتے بلکہ اسے اشعار کی تہہ میں اتر کے معنی تلاش کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ماضی کو بھی نہیں بھولتے اور مستقبل سے بھی آشنا کراتے ہیں ، خواب دکھاتے ہیں۔

اب زمین پر قدم نہیں ٹکتے
آسمان پر عقاب دیکھا ہے

میری نظروں میں بانکپن کیسا
جاگتا ہوں کہ خواب دیکھا ہے