غالب کی قصیدہ نگاری | Mirza ghalib Qasida Nigari In Urdu

0

غالب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر انھیں عبور حاصل تھا۔غالب نے دو زبانوں، اردو اور فارسی کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔انہوں نے نثرونظم دونوں میں طبع آزمائی کی۔غزل کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی۔ابتدائی شعر گوئی سے لے کر عمر کے آخری حصّے تک انہوں نے بہت سے قصیدے لکھے۔اردو میں کم اور فارسی میں زیادہ۔ان کے اردو قصائد کی تعداد صرف چار ہے۔غالب کے دیوان کا پہلا قصیدہ“سازِ یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بیکار”منقبت میں ہے اور اس کی تشبیب میں بہار کی کوئی زندہ تصویر بنتی نظر نہیں آتی۔

دوسرا قصیدہ” دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں”ہے۔یہ قصیدہ حضرت علی کی شان میں ہے۔ یہ پہلے قصیدے سے زیادہ پر اثر ہے۔اس قصیدے کی تشبیب متصوفانہ ہے۔تشبیب کے دس اشعار میں فلسفہ وحدت الوجود کی تائید اور کثرت کی نفی کرتے ہوئے رونق دنیا سے دامن بچانے کی ترکیب کی گئی ہے۔یہاں پہنچ کر شاعر کو اچانک خیال آتا ہے کہ اسے کیا لکھنا تھا وہ کس مخمصے میں الجھ کر رہ گیا ہے وہ خود کو مدح کی طرف متوجہ کرتا ہے۔گریز کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

کس قدر ہر زہ سرا ہوں کہ عیاذا بالله
یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں

اس کے بعد مدح کی طرف آتے ہیں

کس سے ہو سکتی ہے مدّاحئ ممدوحِ خدا
کس سے ہو سکتی آرائشِ فردوسِ بریں

اس کے بعد قصیدہ دعائیہ اشعار پر ختم ہوتا ہے۔یہ قصیدہ پہلے قصیدے کی مقابلے میں زیادہ صاف اور رواں ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ اس قصیدے کی تصنیف کے وقت شاعر کو الفاظ اور ترکیب پر حاکمانہ قدرت حاصل ہو چکی تھی اور بات کہنے کا اندازہ زیادہ پر اثر ہوگیا تھا۔زبان میں بھی نسبتاً سادگی آ چکی تھی۔

ان دو قصیدوں کے ساتھ غالب کی قصیدہ گوئی کے دور اول کا خاتمہ ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے پرانے کلام کو رد کردیا اور ابہام اور پیچیدگی سے پرہیز کرنے لگے لیکن قصیدے کی طرف توجہ نہیں کی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان ذوق کے قبضہ میں تھا۔ذوق کی وفات کے بعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام کی اصلاح کاکام غالب کو سونپا۔چنانچہ غالب نے اپنا تیسرا قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں تحریر کیا۔“ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام”ہر لحاظ سے ایک قابل توجہ قصیدہ ہے۔قصیدہ میں تشبیب کی حیثیت تمہید کی ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قاری کی توجہ فوراً گرفت میں لے لے۔اس قصیدے کی تشبیب اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے۔ ہلال عید کے خمیدہ چاند کو دیکھ کر شاعر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس کے سامنے تسلیم خم کر رہا ہے۔

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

چناچہ غالب سوال کرتے ہیں کہ اے چاند! تیری کمر میں خم کیوں ہے؟ وہ کون ہے جس کو تو سلام کر رہا ہے؟ اس قصیدے میں غالب اپنا ایک الگ رنگ نکالے نظر آتے ہیں یہاں نہ ان کی پرانی مشکل گوئی نظر آتی ہے اور نہ پیچیدہ انداز بیان۔اس قصیدے میں ایک تازگی ہے اور کہیں کہیں لب و لہجہ بول چال کا ہے۔

الفاظ کی ترتیب اور لب و لہجے کی بے ساختگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی باتیں کررہا ہے اور پھر مکالمے کی شان پیدا ہوتی ہے۔

غالب کا چوتھا اور آخری قصیدہ بھی دوسرے قصیدے کا ہم پلہ ہے۔تشبیب بھی دلکش ہے۔ غالب کا تخیل صبح کے سورج کو بارہ گل سنگ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔

صبح دم دروازہ خاور کھلا
مہر عالمتاب کا منظر کھلا

یہ مختصر قصیدہ اس دعا پر ختم ہوتا ہے کہ جب تک روز و شب کا طلسم برقرار ہے اس وقت تک اس حکمران کی حکمرانی باقر ہے۔

مختصر یہ کہ غالب ہر میدان میں اپنا راستہ آپ نکالتے تھے۔قصیدہ نگاری میں بھی وہ اپنی طرز خاص کے خود ہی موجد اور خود ہی خاتم ہیں۔ان کی تشبیب دل آویز، گریز فطری اور پرکشش ہوتی ہے۔مدح گوئی میں وہ زمین آسمان کے قلابے نہیں ملاتے لیکن ان کی مدح کسی حد تک حقیقت کے قریب ہوتی ہے اور اس لیے زیادہ پراثر ہوتی ہے اور ان کے قصائد کے دعائیہ حصے تو آج تک زبان زد خلائق ہے۔