الیاس گھمن

0
تحریر ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

عہد حاضر میں پنجابی زبان کے لیے نمایاں خدمات سر انجام دینے والی سب سے سر برآوردہ اور قدآور شخصیت الیاس گھمن کی ہے ۔۔الیاس گھمن وہ محور ہے جس کے گرد پورا پنجاب گھومتا ہوا نظر آرہا ہے۔۔وہ پنجاب کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہر عالمی پنجابی کانفرنس میں شرکت کر چکے ہیں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں وہ کینیڈا یورپ امریکہ لندن بھارت جاپان انڈونیشیا اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں۔

پنجابی زبان سے ان کا والہانہ لگاؤ اور عشق کی بدولت آج پنجابی زبان اس مقام پر کھڑی ہے کہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ایک وقت وہ تھا جب پنجابی کو دوسرے درجہ کی زبان سمجھا جاتا تھا اور اسے صرف ایک علاقائی زبان تک محدود رکھا جاتا تھا لوگ پنجابی میں لکھنا اور شاعری کرنا اپنے لیے توہین سمجھتے تھے۔ پنجابی کتابوں کی تعداد بہت کم تھی ۔۔دو سال میں ایک دو کتابیں چھپ بھی جاتیں تو وہ بھی اچھے گیٹ اپ میں نہ ہوتی تھیں ۔۔۔۔لیکن آج پنجابی زبان دنیا کی عالمی زبانوں کے مقابلے میں اول درجے میں کھڑی ہے ۔۔۔۔۔یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجابی دنیا کی آٹھویں بڑی زبان ہے ۔ اس جدید پنجابی بیداری کی لہر اور تحریک کے بانی اور محرک الیاس گھمن ہیں جنہوں نے پنجابی کو مقبول عام بنانے اور پنجابی لکھاریوں کی ایک کھیپ تیار کرنے میں ایک سرخیل کا کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے انسٹیٹیوٹ آف پنجابی لینگویج اینڈ کلچر (ادارہ پنجابی زبان تے ثقافت) کے تحت سب سےزیادہ پنجابی کتب شائع کی ہے ۔پنجابی تاریخ کا سب سے بڑا رسالہ” ساہت “شائع کرکے اہل علم و دانش کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اس کے ہزار سے زائد صفحات ہیں۔۔ “ساہت ” جیسا تاریخ ساز رسالہ جاری کرنا پنجابی سے ان کی والہانہ محبت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔اس کے علاوہ وہ” رویل” اور ” میٹی ” جیسے پنجابی رسالے شائع کرکے پنجابی ادیبوں اور شاعروں کے روابط کو مضبوط رکھے ہوئے ہیں ۔۔ان کے ادارے نے سینکڑوں پنجابی کتابیں شائع کی ہیں۔ ۔جو ہر ملک میں بھیجی گئی ہیں جن کا مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے ہیں ۔۔ان کے ادارے سے چھپنے والی کتابوں کو سب سے زیادہ ایوارڈز اور اعزازات بھی مل لے چکے ہیں۔

الیاس گھمن بلاشبہ ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک ادارہ ایک سکول آف تھاٹ اور ایک تحریک کا نام ہے کیونکہ ان کا کام اور محنت کئی اداروں پر بھاری ہے وہ پنجابی کے عالمی سطح کے سفیر ہیں پنجابی کے قابل فخر سپوت اور صحیح معنوں میں فنا فی الپنجابی ہیں ۔۔ان پر مادری زبان بلاشبہ بےانتہا فخر اور ناز کرتی رہے گی۔انہوں نے پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے دیہات اور شہروں میں چھپے قلم کاروں اور شاعروں کو انکے کلام کی اشاعت کرکے اجاگر اور نمایاں کیا اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی کتابوں کو بھجوانے کا بندوبست کیا جس کی بدولت نہ صرف نئے لکھنے والے متعارف ہوئے بلکہ پنجابی ادب کی خدمت کرنے والے سپوتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

الیاس گھمن نے اشاعت کے سلسلے کو صرف پاکستان تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی منتخب پاکستانی پنجابی کہانی، پنڈ دی لج، ال کوکو ، بند گلی والا مکان اور اجڑے گراں دے واسی ، بھی طبع کروائی ہیں ۔۔۔اس دائرہ کار کو مزید پھیلاتے ہوئے وہ ایشیا ،مشرقی وسطی ، یورپ اور امریکہ تک لے گئے ہیں ۔۔ان کی بے مصرف خدمات پر انہیں اپنے ملک سے دو بار صدارتی ایوارڈز اور ہمسایہ ملک سے ایک بار صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ساتھ پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ 60 کے لگ بھگ انعامات اور اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ جو ان کی کاوشوں اور ان تھک جدوجہد کا اعتراف ہے ۔۔۔ان کے دیگر اعزازات اور انعامات میں استاد عشق لہر پنجابی اکیڈمی ایوارڈ ، ناگ منی ایوارڈ ،ہاشم شاہ ایوارڈ ،پنجاب کلچرل فارم ایوارڈ ،نزیر عباسی شہید ایوارڈ ، وارث شاہ ایوارڈ ،بابا فرید ایوارڈ ،پنجابی ستھ لانبڑا جالندھر (بھارت) ایوارڈ ، امیر شاہ علمی ادبی ایوارڈ ، کلچر اینڈ ہریٹیج ایوارڈ (انگلینڈ)،گرونانک دیو ایوارڈ ، مسعود کھدر پوش ایوارڈ ،مولوی عارف ایوارڈ ،نور کپور تھلوی ایوارڈ اور بری نظامی ایوارڈ شامل ہیں۔

پنجابی ادب کے اس انتھک کارکن کے کام کو سراہتے ہوئے بہاولنگر سےپنجابی جریدے ” تماہی ” کے تحت “الیاس گھمن نمبر” شائع کیا گیا جس میں الیاس گھمن کی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔۔الیاس گھمن کی بہت ساری کہانیاں پنجابی زبان کی مایاناز کہانی کار اور شاعرہ امرتہ پریتم کے رسالے ناگمنی میں شائع ہو چکی ہیں ۔۔ “تماہی” جریدے “الیاس گھمن نمبر” میں مصنف فخرزمان امرتا پریتم سے اپنی ایک ٹیلیفونک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امرتا پریتم نے ہندوستان میں اپنی ادارت میں شائع ہونے والے ” ناگ منی “میں الیاس گھمن کی کہانی ” جاندی بہار دیاں مائیاں” پڑھنے کی تجویز دی تھی ۔۔۔۔۔۔بعد ازاں فخر زمان نے الیاس گھمن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” میں نے گھمن کو ایک تخلیقی شخصیت کی حثییت سے پایا ہے جس کی کہانیوں کا پنجاب کی سر زمین سے گہرا تعلق ہے ۔اس کا پنجابی تہذیب و ثقافت سے مضبوط تعلق ہے ۔۔ان کی کہانیوں میں پنجاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چلتا پھرتا ، اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے ۔۔ان کی کہانیوں میں ان کی مضبوط جڑت ، مضبوط مشق ، تکنیک ،اسلوب اور جدید نقطہ نظر قاری کو متاثر کرتی ہیں ۔۔ان کی کہانیوں میں ہماری سر زمین کی خوشبو رچی بسی ہے۔

الیاس گھمن جیسے پنجابی کے سچی خدمت گار روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔۔وہ بلا شعبہ پنجابی زبان و ادب کا سرمایہ افتخار ہیں۔۔
الیاس گھمن کی تخلیقات میں وا ویلیاں ، پرانا پنڈ ،مٹی واجاں مار دی ،ادھرنگ ،گھر والی ،کالا پرچھاواں ،ناول اور ناولٹ کے علاوہ لوک ادب میں جنور باتاں (لوک کہانیاں)،پنج پھلاں رانی ، غریب بادشاہ ،ادھے دی داستان ،سریلی وانجلی والا ،ودیسی لوک کہانیاں ،پنڈ دے ہاسے مخول ،بجھو بجھو کون اے ،اور پنجابی افسانوں کے مجموعوں میں “پنڈ دی لج” ، “اگلا بندہ” ،”کچی ڈھیری” ،اور “بھگوان شکاری” شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بچوں کے ادب کے حوالے سے الیاس گھمن جتنا ادب کسی بھی پنجابی ادیب نے تخلیق نہیں کیا ۔۔انھیں بچوں کے ادب کے حوالے سے بے شمار اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں ۔۔انھوں نے بچوں کا ادب تخلیق کر کے نئی نسل کو ” ماں بولی ” کے مزید قریب تر کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں بچے پنجابی کتب پڑھ کر اسے اپنے ذہن میں راسخ کر لیتے ہیں اور ان کا مستقبل مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتا ہے۔

بچوں کے پنجابی ادب کے حوالے سے ان کے مشہور ناول ” سکی ماں ” ، “گینڈے گل گلاواں”، “میرا کولا خالی کیوں” (کہانیاں)، چاچا چام چڑک “(کہانیاں)،بابا لاچی سپاری ،رنگ رنگ دے رچھ ” ،لبھو لبھو لکیاں شیواں ” ،”ہاسے ونڈ دیاں لیکاں ” ، “کتکتاریاں” اور دیگر کئی اہم کتب شامل ہیں۔

سائنسی اور نصابی کتب میں ریڈار اور الیکٹرانکس بی ایس سی انجینئرنگ کی سطح کے لیے لکھی گئی ہیں ۔۔بیالوجی، کیمسٹری، سائنس، حساب، گر مکھی ، شاہ مکھی قاعدہ اور سائنسی کھیڈاں ، میٹرک اور پرائمری کے طلباء کے لئے لکھی گئی ہیں ۔علاوہ ازیں تحقیقی اور فکری حوالوں سے ان کی بہت ساری کتب منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔

الیاس گھمن 25 / اگست 1961 کو تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں ستیا میں پیدا ہوئے۔۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی ۔۔بعد ازاں انھوں نے ایف ایس – سی لاہور سے کی۔

انھوں سے اپنے والد سردار خان گھمن ، نانا چودھری جلال دین ، جو مولانا ظفر علی خان کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے ۔۔وراثت میں علم و ادب سے شغف پیدا ہوۓ ۔۔۔۔الیاس گھمن نے اس ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں پیر وارث شاہ ، بابا فرید شکر گنج ، وارث شاہ ، بلھے شاہ ،شاہ حسین ،اور میاں محمّد بخش کی شاعری کثرت سے پڑھی اور سنی سنائی جاتی تھی۔

ان کے والد چودھری سردار خان گھمن نے اپنی اولاد کو اعلیٰ زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انھیں معاشرے میں ایک بلند مقام دیا ۔۔۔ان کے دوسرے دونوں بھائی ڈاکٹر بن کر ملک و ملت کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔۔۔الیاس گھمن نے این – ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے الیکٹرانکس میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1987ء میں واپڈا افسر بن کر اپنی سرکاری ملازمت کا آغاز کیا ۔۔اپنی ملازمت میں ایس ڈی اؤ سے ترقی کرتے ہوۓ ایکسین کے عہدہ پر ایک عرصہ تک کام کرتے رہے۔

مارچ 2018ء کو ان ترقی بطور “سپریٹنڈنٹ انجینئر ” ایس ای’ فیسکو فیصل آباد ہو گئی’ جہاں انھوں نے اس عہدہ پر دو سال نہایت ایمانداری اور تندہی سے کام کیا ۔۔آپ کا شمار محنتی ، ایماندار اور فرض شناس افسران میں ہوتا تھا ۔۔۔آپ کی بے مثل فرض شناسی کی وجہ سے آپ کی ترقی بطور ” چیف انجینئر ” گیپکو گوجرانوالہ میں ہوگی۔۔جہاں آج کل آپ بطور “چیف انجینئر” گیپکو گوجرانوالہ میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ادب تخلیق اور بحث و مباحثہ کا شوق نہیں بچپن سے ہی ہے۔ اور یہ نعمت انھیں گھر سے ملی ہے ۔۔ان کے نانا چوہدری جلال الدین اپنے گاؤں کے ایک سرکردہ اور معزز شخصیت تھے ۔وہ مولانا ظفر علی خان کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے ۔۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گھر میں ہیروارشاہ بڑے شوق سے پڑھی اور سنی جاتی تھی ۔پنجابی کی اسلامی کتب کا ذخیرہ بھی موجود تھا ۔پنجابی پڑھائی کا سلسلہ ہمارے گھر میں قدرتی طور پر انھیں ورثے میں ملا ۔جب شعور نیا کھولیں تو دوست احباب کو پنجابی پڑھتے ہوئے دیکھا ۔کلاسیکل غزل کی مٹھاس اور رس بھری تاثیر نے ان کے دل و دماغ کو خود بہت پنجابی کی طرف راغب کر دیا ۔اس کے علاوہ ان کے بزرگوں میں کچھ رجحان سماجی خدمت کی طرف تھا۔وہ سوشل ویلفیئر کے کاموں میں بہت مصروف رہتے تھے ۔اسی دور میں میجر اسحاق کا ڈرامہ “مصلی” نیا نیا آیا تھا ۔ان کے گاؤں کے کچھ جوانوں نے یہ ڈرامہ ، ڈرامائی شکل میں پیش کیا۔۔ گاؤں کے ماحول کو دیکھ کر ان کا رجحان جو پنجابی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

ان کے ڈیرے پر بابا فرید شکر گنج ،وارث شاہ ،بلھے شاہ،شاہ حسین اور میاں محمد بخش کا کلام پڑھا جاتا تھا ۔اس طرح پنجابی کلام کی خوبصورتی اور مٹھاس سے ان کا ذہن قدرتی طور پر پنجابی کے عشق میں مبتلا ہوتا چلا گیا ۔۔پنجابی زبان کی طرف رجوع کرنے کا عملی طور پر ایک پہلو یہ بھی بنا کہ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر سرور گھمن پیدائشی طور پر پنجابی کے عاشق صادق تھے وہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن اپنے حلقہ احباب کو پنجابی زبان میں خط لکھا کرتے تھے ۔اپنی پڑھائی کے دوران انھوں نے ان سب بہن بھائیوں کو پنجابی اکھان (کہاوتیں) اکٹھی کرنے کا پراجیکٹ دیا۔پنجابی لکھنے اور لوک ادب کی طرف آنے کا یہ پہلا منصوبہ تھا جو انھوں نے چھ ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد اڑھائی ہزار اکاؤن ٹ اکٹھے کرکے اپنے پنجابی ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ۔۔پھر یہی ٹریننگ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئی ۔پھر بغیر کسی ترغیب کے ان کا ذہن پنجابی زبان کی طرح مکمل طور پر راغب ہوگیا۔

الیاس گھمن پنجابی کی طرف عملی طور پر آنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس دن میں نے داود کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں داخلہ لیا ہمارے سامنے ایک بہت بڑے بورڈ پر لکھا ہوا تھا “رنجیت سنگھ کانے کی اولاد کے لیے کوئی گنجائش نہیں “۔۔اس فقرے نے انہیں جذباتی کردیا کہ سندھی اور اردو بولنے والے اگر انہیں زبردستی پنجابی بنا ہی رہے ہیں تو پھر ہم بنتے ہو کیوں نہیں ہے ۔۔اس کے رد عمل میں گھمن صاحب باقاعدہ پنجابی زبان و ادب کی طرف آگئے ۔اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کو اس کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کر دیا پنجابی زبان کی خدمت ہیں ان کی عزت اور عظمت کا سبب ہے۔

اس کے رد عمل میں الیاس گھمن نے کیا لائحہ عمل مرتب کیا وہ بتاتے ہیں کہ شروع سے ہی اپنے رد عمل اور خیالات پر عمل کرنے کا جذبہ میرے اندر دوسروں کی نسبت زیادہ موجزن رہا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کے انہوں نے کالج سے اردو پنجابی کا ایک ماہنامہ میگزین
“سحر ” شائع کرنا شروع کر دیا اور اور میں ہی اس کا ایڈیٹر بنا ۔۔اصل مقصد تحریک میں کام کرنا تھا ادب میں نہیں ۔میگزین کا اجرا اور اس کی ادارت کرنا اصل میں انھیں ادب کی طرف لے گیا۔ان کے اندر کا ویدر صلاحیتیں اجاگر ہوئیں ۔جس سے ان کا حوصلہ اور جذبہ مزید بڑھتا چلا گیا ۔۔سحر کو نکالتے ہوئے یہ پنجابی زبان کے مسائل کو بڑی حد تک سمجھ چکے تھے۔

پنجابی زبان کے ادبی اور لسانی مسائل کو سمجھنے کے بعد اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اس زبان کو ترقی کیسے دی جائے ۔۔اگلا شمارہ “سوہنی دھرتی” نکالا ۔یہ پنجابی کا پہلا سالنامہ تھا ۔اس میں نہ صرف پاکستانی ادیبوں کی تحریریں شامل کی گئی بلکہ بھارت ، امریکہ ، کینیڈا اور انگلینڈ کے پنجابی ادیب جن میں زیادہ تر سکھ ادیب شامل تھے ان کی تحریروں سے اس پرچے کو سجایا گیا ۔۔جس سے ان کو بہت پذیرائی ملی ۔ جب جب احساس ہوا کہ اب یہ ادیب بن گئے ہیں تو پھر انہوں نے شکاریات کے موضوع پر ایک کتاب “بھگوان شکاری” لکھی ۔تعلیمی سلسلہ اس وقت اختتام کو پہنچ چکا تھا اور انہوں نے پنجاب میں آکر واپڈا میں ملازمت اختیار کر لی ۔سات سال لکھنے لکھانے کا سلسلہ چلتا رہا۔۔لوک ادب اکٹھا کرنے کا انھیں بہت شوق تھا ۔۔اپنے شوق کی تکمیل کے لئے ” جنور باتاں ” نام سے کتاب ترتیب دی ۔۔اس کتاب کو پنجابی ادبی بورڈ لاہور نے شائع کیا ۔۔۔”جنور باتاں” کو قومی ادبی ایوارڈ مل چکا ہے۔

انہوں نے پنجابی سائنس بورڈ لاہور کی بنیاد 1989 میں رکھی تھی ..ستمبر 1989 سے پنجابی میں الیکٹرونکس انجینئرنگ کی پہلی کتاب” ریڈار “چھپی جو کہ میٹرک پنجابی نصاب میں شامل ہے ۔۔اس دوران پنجابی کا اخبار” سجن” شروع ہوا الیاس گھمن اور ان کے کئی ساتھی عملی طور پر اس کی خدمت کا فریضہ اعزازی طور پر سر انجام دینے لگے۔
” سجن” اخبار میں پنجابی زبان کو ایک نیا موڑ دیا لیکن زیادہ دیر تک چل نہ سکا ۔۔صدیوں کے آخری ایام میں انہیں علم ہو گیا تھا کہ سجن کی نبضیں خاموش ہو رہی ہیں تو تو انہوں نے روزنامہ سجن میں رویل نیوز ایجنسی قائم کرکے خبریں دینا شروع کر دیں ۔ان کا خیال تھا کہ ایک پنجابی کہ ایک پنجابی اخبار تحریک کی خبریں شائع کرسکے ۔۔انھوں نے “رویل ” کا ڈیکلیریشن لے لیا اور 1990 میں انھوں نے “رویل” باقاعدہ شروع کر دیا تھا ۔۔اس کی کامیابی سے انہیں بہت حوصلہ ملا ۔۔اس کے بعد انہوں نے بچوں کا میگزین” میٹی ” شروع کیا ۔۔” میٹی ” کو بھی بہت پذیرائی ملی۔

“رویل ” کچھ عرصہ کے لئے بند ہو گیا تھا پھر اس کا دوبارہ نئے سرے سے ڈکلیریشن ٹرانسفر کرانا پڑا۔۔ اپنے تاریخ ساز رسالہ ” ساہت “کے اجراء کے بارے میں الیاس گھمن بتاتے ہیں کہ پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے ایک حد تک اس کی ضرورتوں اور حقوق کے تحفظ کے بعد میرا خواب تھا کہ پنجابی ادب صرف پاکستان میں ہی تو نہیں تخلیق ہو رہا ہے بلکہ دنیا کے جس حصے میں بھی جیسا بھی پنجابی ادب تخلیق ہو رہا ہے اس کا سالانہ انتخاب شائع ہونا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ کون کیا لکھ رہا ہے میری ایک عرصے سے یہی سوچ تھی کہ دنیا بھر کے پنجابی ادیبوں سے کیسے رابطہ کیا جاسکے ۔۔ایک ایسا مقام آیا کہ ہمیں اس کا باقاعدہ ڈیکلریشن لینا پڑا۔اور ہم نے اس کے تین تاریخ ساز رسالے نکالے ۔جس میں دنیا بھر میں تخلیق ہونے والا پنجابی ادب ،تنقید ،کھوج ،لسانیات ،فن ، رہتل اور ہمارے کلچر کے مختلف پہلوؤں پر رنگارنگ تحریریں شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سفر نامے ، شاعری ، افسانے اور ناول بھی شامل ہیں۔۔”ساہت ” جیسا تاریخ ساز ضخیم ادبی جریدہ پنجابی ادب کی تاریخ میں پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آیا ۔اس کو پوری دنیا میں قدر اور حوصلہ کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔۔
“ساہت ” کے تین شماروں کے بعد اس کی اشاعت کا سلسلہ منقطع ہونے پر الیاس گھمن بتاتے ہیں کہ اصل میں یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ مجبوریوں کی بنا پر تعطل آ گیا ہے ہم جس مشنری جذبہ اور ولولہ کے “ساہت” لے کر دنیا ادب میں داخل ہوئے تھے وہ حوصلے اب بھی توانا اور جوان ہیں ۔بس میری بڑھتی ہی پیشہ ورانہ مصروفیت اور مجبوریوں کی وجہ سے شائع نہیں ہو رہا ہے جو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ شروع ہو جائے گا ۔۔ہم مفادات اور ذاتی منفعت سے بالاتر ہوکر پنجاب ،پنجابی اور پنجابیت کی خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

پنجابی صحافت کے مستقبل کے بارے میں الیاس گھمن کہتے ہیں کہ پنجابی ثابت کا مستقبل بڑا تابناک ہے اصل میں اگر کوئی تحریک کامیاب ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ اس تحریک کو چلانے والے کتنے مخلص ہیں۔تحریک کو دنیا کا کوئی عمل روک نہیں سکتا ۔صرف تحریک کے کارندوں کی سعی و جدوجہد میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہوتی ہے ۔پنجابی صحافت کا مستقبل اس لئے درخشاں ہے کہ میں نے اخباری ایجنسیوں سے بات کی ہے ۔دکانوں پر چکر لگائے ہیں ۔مجھے معلوم ہے کس کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں موجود ہے ۔۔کچھ دوستوں نے ڈکلیریشن لے لیے ہیں ۔۔کوئی نہ کوئی پنجابی خادم ضرور کامیاب ہو سکے گا ۔۔کمی صرف بنیادی وسائل کی ہوتی ہے ۔۔ضیا شاہد نے “خبراں” کا اجراء کر کے ثابت کیا ہے کہ پنجابی کے پرستار کتنے ہیں ۔۔پنجابی اخبار کو زبردستی پذیرائی ملی ہے ، عوام کو کوئی پنجابی اخبار ملے تو سہی، مزاج خود بہت بدل جاتے ہیں ۔۔ پہلے نمبر پر بنیادی وسائل ہونے چاہئیں۔

مثلاً پریس ،کمپیوٹر اور کم از کم دو سال اشتہار نہ ملنے کی صورت میں پرچہ بغیر تعطل کے نکالنے کے لئے سرمایہ کا ہونا یقینی بات ہے۔دوسرے نمبر پر خبر لکھتے وقت مناسب پنجابی ٹرمینالوجی یا خبری لفظالی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔یہ انگریزی اردو سے پنجابی ترجمہ کھانے کے لیے ممد و معاون ہوتی ہے ۔اور ایک نئے ایڈیٹر کے لیے اوریجنل یا اپنے آپ خبر بنانے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ہم اس سے قدرتی اعداد میں الفاظ لکھ لیتے ہیں ،۔سارے اخبارات و رسائل کا ایک لفظ پر مطمئن ہونا ضروری امر ہے ۔۔یہ سب تکنیکی الفاظ ہوتے ہیں ۔۔تیسرے نمبر صحافت میں زبان سادہ ترین اور عام فہم ہونی چاہیے کیوں کہ جو کہ صحافت عوام کا میڈیا ہے اور دکاندار سے لے کر مزدور تک اور افسر سارے پڑھیں تو انھیں اجنبیت محسوس نہ ہو ۔۔البتہ کہانی ،نظم یا غزل کی زبان بے شک علامتی ہو ۔۔صحافت عوام کو قریب تر کرنے والی ہو نہ کہ فاصلے بڑھانے والی ہو۔

افسانہ کی موجودہ “ہییت “کے بارے میں الیاس گھمن کہتے ہیں کہ شاعری کی طرح افسانے کی جامع تعریف ناممکن ہے مشہور امریکی افسانہ نویس ایڈ گرایلین پو کے نزدیک افسانہ ایک نثری داستان ہے ۔افسانے کی سب سے بڑی خصوصیت وحدت تاثیر ہے اس لئے فنی اعتبار سے افسانے کا تاثر آغاز سے انجام تک قائم رہنا چاہیے ۔۔واقعات کی کڑیاں مسلسل مربوط اور منظم ہوگی تو افسانے کی عمارت کھڑی ہوسکے گی۔

پنجابی افسانے کا سفر کب شروع ہوا تو اس سلسلے میں الیاس گھمن کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں جن افسانہ نگاروں نے اپنے کمال فن سے پنجابی ادب کے گلشن کی آباد کاری کی اور افسانہ کو خاطرخواہ سہارا دیا ۔ان میں امرتا پریتم، کرتار سنگھ دگل، جسونت سنگھ کنول ،کلونت سنگھ ورک ،مہندر سنگھ جوشی ،دیور سنگھ ، بوٹا سنگھ اور کی نام شامل ہیں ۔۔۔قیام پاکستان کے بعد اردو سے پنجابی کی طرف آنے والے افسانہ نگاروں میں جوشوا فضل دین ، سجاد حیدر اشفاق احمد صوفی تبسم ،عبدالسلام خورشید، اکبر لاہوری ،وقار انبالوی اور عبدالمجید سالک کے نام شامل ہیں ۔پنجابی افسانہ کی خوش قسمتی ہے کہ پنجابی کو شروع سے ہی ایسے افسانہ نویس مل گئے جو پہلے اردو میں لکھ رہے تھے۔

اس طرح پنجابی افسانہ کی بنیاد اس مقام پر بنتی ہے جب اردو افسانہ عروج پر تھا ۔۔ایک سے ایک بڑھ کر افسانہ نگار اپنے کمال فن سے پنجابی میں جلوہ گر ہے ۔۔بعد ازاں نواز، حنیف باوا ، افضل احسن رندھاوا ،حنیف چوہدری، عبدالمجید بھٹی، نذر فاطمہ، رفعت افضل توصیف ،حسین شاد ، نادر جاجوی ، منشا یاد اور آصف خان اس میدان میں آئے اور پنجابی کو افسانوں کی دولت سے مالا مال کیا ۔۔عہد حاضر میں غلام مصطفی بسمل ، احمد شہباز خاور ، جمیل احمد پال ،علی اختر ،غلام رسول شوق ، فاروق ندیم ، ناصر رانا ،اخلاق حیدرآبادی ، شفیع ہمدم ،ثناور چدھڑ، خالد شیخ ، زاہد حسن ،اظہار احمد گلزار ، اظہر جاوید ،کلیم شہزاد ،ریاض احمد قادری ، رانا غلام شببر ،شوکت علی قمر ،حاتم بھٹی ،بابو جاوید گرجکھی ،انور احمد علی ،اور کئی لوگ پنجابی کو معیاری افسانے دے رہے ہیں ۔۔۔

جب الیاس گھمن سے یہ سوال کیا گیا کہ اظہار کے مختلف ذریعوں میں سے آپ نے شاعری کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اصل میں میرے ادبی سفر کا آغاز شاعری ہی سے ہوا ہے ۔میں نے ابتدائی دور میں نظموں کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا تھا بعد میں باقاعدہ نثر کی طرف رجحان ہوگیا ۔۔اس طرح میں نے بھرپور نثر نگاری کی ہے۔ بچوں کے ادب کے علاوہ لوک ادب اور افسانہ نگاری ، ناول نگاری یہ سب میدان میں سر سے مزین ہوتے ہیں ۔۔مجھے جو مزا نثر لکھ کر آتا ہے وہ شاید شاعری میں بھی نہیں آیا ۔۔حالانکہ میرا خیال ہے کہ شاعری باقی اصناف اور فنون کے مقابلے میں ایک جز وقتی ، سہل اور آسان طریقہ اظہار ہے۔۔پھر اس کے لئے کسی مخصوص نشست، مقام ،وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں ہوتی لیکن شاعری کی نسبت نثر لکھنا قدر مشکل اور محنت طلب کام ہے۔

الیاس گھمن واپڈا سے ریٹائرمنٹ کے بعد پنجابی زبان کو تعلیم کے شعبے میں اس کا اصل مقام حاصل کرنے کے لیے بھرپور کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔

الیاس گھمن کی ایک اور اہم، تاریخی اور یاد گار تصنیف ” پاکستان لہر تے قائداعظم” ہے جو 560 صفحات پر محیط ایک عمدہ تحقیق اور تالیف ہے جو حضرت قائداعظم کی پاکستان کے لیے انتھک کاوشوں کو سامنے لاتی ہے ۔۔قائد اعظم کی ابتدائی حالات زمانہ ،طالب علمی اور اعلی تعلیم کے بعد سیاست میں ان کی تمام تر کاوشوں کو سلام عقیدت کی ایک کڑی ہے ۔۔جس کو انہوں نے بہت عرق ریزی اور محنت سے ترتیب دیا ہے ۔۔ایک محب وطن ہونے کے ناطے سے الیاس گھمن نے حضرت قائداعظم کو بہت شاندار الفاظ میں ان کی ملی کاوشوں کو سراہا ہے ۔۔۔قائداعظم کا شمار تاریخ عالم میں بلند پایہ سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

اعلی سیاسی تدبر فقیدالمثال استقبال اور شبانہ روز محنت سے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا حصول نازل کرنا صرف حضرت قائداعظم کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔۔نوزائیدہ اسلامی مملکت کو اپنے پاؤں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑا کرنے کے لئے پیرانہ سالی میں گورنر جنرل کی حیثیت سے حضرت قائد اعظم کی عدیم المثال محنت و کے بارے میں دنیا کی کئی اہم زبانوں میں بہت ساری کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی ۔۔لیکن اس سلسلے میں الیاس گھمن کی تصنیف “پاکستان لہر تے قائد اعظم ” کو دیکھ کر بے حد خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔۔وہ اس لئے کہ پنجابی میں شعر و شاعری کی کتابیں تو عام مل جاتی ہیں پر علمی اور تحقیقی موضوعات کے حوالے سے اپنی قلم کے جوہر دکھانے والے بہت ہی کم پنجابی دانشوروں نے اس طرف دھیان دیا ہے۔۔۔۔خاص کرکے تحریک پاکستان اور اپنے قومی خدمت کے حوالے سے پنجابی میں تحقیقی کام کرنے کی کوئی مضبوط روایت قائم نہیں ہو سکی۔

قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے خالص پنجابی زبان میں لکھی گئی اس ضخیم کتاب کا شائع ہونا ہی اپنی جگہ پر ایک تاریخی واقعہ ہے۔مزید یہ کہ علم تحقیق کی حالیہ دنوں کو مدنظر رکھ کر جس پر اہم مواد کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے اس موضوع پر لکھی گئی اردو کتابوں میں بہت ہی کم ایسا مواد ملتا ہے ۔۔ قوی امید ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے موضوع پر ایسی معیاری کتاب لکھنے پر کتاب کا مصنف الیاس گھمن بلکہ پنجابی ادیبوں کی پوری برادری کو قوم و ملت کی طرف سے بھرپور خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔۔الیاس گھمن کا یہ تحقیقی کام بلاشبہ لائق تحسین و صد آفرین ہے۔

اللہ کرے پنجابی زبان و ادب کے عالمی سفیر اور پنجابی فکشن کے بہت بڑے لکھاری الیاس گھمن اسی طرح پنجابی ،پنجاب اور پنجابیت کی خدمت کرتے رہیں ۔۔۔پنجابی کے ایسے مایہ ناز سپوت پر جتنا بھی فخر اور مان کیا جائے کم ہے ۔۔وہ اپنی دھرتی اور دھرتی کے باشندوں سے والہانہ پیار کرتے ہیں۔۔۔ اللہ کرے کہ وہ پنجابی کو اس کا اصل مقام دلوانے میں کامیاب ہو سکیں۔ الیاس گھمن کے ساتھ ایک شام میں راقم نے یہ نظم پڑھی تھی جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

پیار ،خلوص، محبت، سجناں تیرا اے سرناواں
تیری سوچ دے زور نے پایا “گینڈے گل گلاواں”

تینوں ڈھیر ودھایاں دیندا تاییوں ایہہ جگ سارا
کھول کے بانہواں ملنا سب نوں ، تیرا ایہہ ورتارا

تیرے ورگے سچ سیوک نوں کردا جگ سلام
تیرے قلم دے زور نے جیتے وکھو وکھ انعام

ساہت ،رویل تے میٹی سجناں تیرے دم نال چلے
توں دنیا تے سوبھا کھٹی ہو گئی بلے بلے

نال کسے دے ویر نہیں تیرا ،سجناں نال سجنائی
ماں بولی دی سیوا کر کے توں ایہہ عزت پائی

شالا! تینوں نظر نہ لگے ساڈیاں ہین دعائیں
مان جوانی جیوندا رہیں توں ، رہندی دنیا تائیں

دیسوں باہر وی تیرے ناں دے ہین الیاس جی چرچے
ساہت ،رویل تے میٹی ورگے جگ دھمے نیں پرچے

تیرے ورگے ادبی سیوک روز نہ جمن ماواں
تیریاں دور بلاواں گھمنا ، تیریاں دور بلاواں

تیری سوچ وچار دا سجناں کون کرے اظہار
تیرے دم نال ماں بولی دے گلشن وچ بہار
( اظہار احمد گلزار )