شہریار | Shahryar Biography In Urdu

0

۱٦ جون ۱۹۳٦ میں بستی کے ایک چھوٹے سے گاؤں انوالا، اترپردیش میں رہنے والے ابومحمد خان کے گھر ایک لڑکے کی ولادت ہوئی۔ انھوں نے اسکا نام ‘اخلاق محمد خان’ رکھا۔ اخلاق کی ابتدائی تعلیم بلند شہر میں ہوئی۔ ابومحمد خان اپنے ضلعے کے پولیس افسر تھے۔ انکی دلی خواہش تھی کہ انکا بیٹا بھی انہی کی طرح پولیس افسر بنے۔ البتہ انکے بیٹے کا خواب ایک ماہر کھلاڑی بننے کا تھا۔

اخلاق کو ہاکی کھیلنے میں جنونی حد تک دلچسپی تھی۔ ہاکی کے علاوہ اخلاق کو نظمیں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ انہوں نے خلیل الرحمٰن کی نگرانی میں نظم نگاری کا فن سیکھا۔ اپنے ہاکی کے خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے گھر چھوڑ دیا۔ گھر چھوڑنے پر جب انہیں ذریعۂ معاش کی فکر ستانے لگی تو انہوں نے ‘انجمن ترقیِ اردو’ کے ماتحت کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو لیٹریچر کے معلم کا عہدہ لے لیا۔

ملازمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ ۱۹۸٦ میں وہ معلم کے عہدے پر فائز ہوئے، اور ۱۹۹٦ کو وہ اردو شعبہ کے صدر بن کر مستعفی ہوئے۔ اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ کے دوران بھی انہوں نے اپنی نظم نگاری کے فن کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ انکی نظموں کا پہلا مجموعہ “اسم اعظم” ۱۹٦۵ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دوسرا مجموعہ “ساتواں در” ۱۹٦٩ میں اور تیسرا مجموعہ “ھجرت کے موسم” ۱۹۷۸ میں جاری ہوا۔ انکی سب سے نمایاں نظم “خواب کے در بند ہیں” بھی اسی سال منظر عام پر آئی، اور اس کے لیے اُنھیں ‘ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ’ ملا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پانچ دیگر نظموں کے مجموعے بھی جاری کیے۔

معلمی سے استعفی لینے کے بعد انھوں نے اپنا سارا وقت نظم نگاری کی نذر کر دیا اور اسکے ساتھ وہ ادبی میگزین “شعر و حکمت” کی ترمیم میں بھی شریکِ کار تھے۔ وہ اکثر اپنی نظموں میں اپنا قلمی نام “شہریار” استعمال کرتے تھے۔ شہریار بنیادی طور پر ایک دانشور نظم نگار تھے۔ انکی نظمیں تکمیلِ ذات، جدید مسائل، سماجی فکر اور محرومی کے درد کو بہترین انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ جزبہ انکی نظم “سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے” میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

مظفر علی اور شہریار تعلیمی زمانے سے دوست تھے۔ مظفرعلی اس دور کے بہترین ہدایت کاروں میں سے تھے۔ مظفر علی نے اس غزل کو اپنی ۱۹۷۸ کی فلم “گمان” میں شامل کرلیا۔ اور اس طرح شہریار نے بحیثیت ‘نغمہ نگار’ فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے ۱۹۸۱ میں علی کی دوسری فلم “عمراؤجان” کے لیے غزلیں لکھیں۔ ان کی غزلوں کی وجہ سے عمراؤجان کے گیت آج بھی مشہور ہیں۔ شہریار نے ہمیشہ کامیابی اپنے شرائط پر حاصل کی۔ انھوں نے یش چوپڑا کی فلم “فاصلے” کے لیے نغمے لکھے تھے۔ اس کے بعد یش چوپڑا نے انہیں اور تین فلموں میں گانے کی پیشکش دی۔ مگر انھوں نے اسے خارج کردیا کیونکہ وہ ‘نغموں کی دکان’ نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھیں طمانیت و تنہائی میں کام کرنا پسند تھا جو انھیں علی گڑھ میں میسر تھا۔

۲۰۰۸ میں انھیں ‘گیان پیٹھ ایوارڈ’ جیسے اعلیٰ لیٹریری اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ طویل عرصے تک سرطان جیسے موذی مرض سے جوجھنے کے بعد ١٣ فروری ۲۰۱۲ میں شہریار، علی گڑھ میں وفات پا گئے۔ اور ہندوستان نے ایک بہترین ‘نغمہ نگار’ کو کھو دیا۔