ملا وجہی | Mulla Wajhi Biography In Urdu

0

نام اسداللہ اور تخلص وجہی تھا جمیل جالبی کے مطابق انہوں نے کئی جگہ وجیہی وجہیہ تخلص بھی استعمال کیے ہیں۔ملا وجہی قطب شاہی دور کے ایک عظیم شاعر، مفکر، عالم، فلسفی اور نثر نگار تھے۔ دوسرے دکنی شعراء و ادباء کی طرح وجہی کی بھی تاریخ پیدایش اور تاریخ وفات کا صحیح پتہ نہیں چلتا لیکن غالباً وہ گولکنڈہ کے چوتھے بادشاہ ابراہیم قطب شاہ کے عہد حکومت(1550-1580)ء میں گولکنڈہ میں پیدا ہوئے اور پھر مزید تین قطب شاہی حکمرانوں محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کے زمانۂ حکومت کو بھی دیکھنے میں کامیاب ہوئے۔

ملاوجہی اپنے دور کے ایک عظیم شاعر اور نثر نگار تھے۔ اس لیے فطری طور پر ان کے ہم عصر اور ان کے بعد کے شعراء حضرات نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا ہے۔ طبعی جو ملا وجہی کا ایک بہت بڑا مداح تھا اس نے اپنی مثنوی “بہرام وگل اندام” میں وجہی کی مدح میں کچھ اشعار کہے ہیں۔

شاہ افضل قادری نے اپنے ایک قصیدے میں عبداللہ قطب شاہ کی مدح کے دوران وجہی کی فنکارانہ صلاحیتوں کی داد دی ہے اور اس کو ‘گیانی’ (عالم) ‘گن بھر’ (صاحب اوصاف) ‘عاقل’ اور ‘کامل’ جیسے الفاظوں سے یاد کیا ہے۔

وجہی کے سن وفات کے تعلق سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن نشاطی نے اپنی مثنوی “پھول بن“(1066)ھ میں اس دور کے مرحوم شعراء کو یاد کیا ہے جن میں وجہی کا نام شامل نہیں ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1066ھ میں وجہی کی وفات نہیں ہوئی تھی۔ البتہ طبعی اپنی مثنوی “بہرام وگل اندام” میں وجہی کو مرحوم شاعر کی حیثیت سے خواب میں دیکھتا ہے۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وجہی نے 1066ھ اور 1088ھ یعنی 1655ء اور 1677ء کی درمیانی زمانہ میں وفات پائی۔ وجہی کی “سب رس” کے ایک قلمی نسخے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ سلسلہ چشتیہ کے ایک صوفی بزرگ حضرت شاہ علی متقی کے مرید تھے۔

ملا وجہی نے “قطب مشتری” “تاج الحقائق” “سب رس” اور فارسی دیوان کے علاوہ چند دکنی غزلیں اور مرثیے بھی اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ وجہی کی دکنی غزلوں اور فارسی کلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں تنگدستی، فاقہ کشی اور مفلسی کے دن بھی دیکھے۔

محمد قلی قطب شاہ نے وجہی کو اپنے دربار کا ملک الشعراء مقرر کیا تھا۔ اس دور میں وجہی کو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی دور میں وجہی نے اپنی شاہکار مثنوی “قطب مشتری” لکھی یہ صرف 12 دنوں میں مکمل کی ہوئی وجہی کی طبع زاد مثنوی ہے۔ اس مثنوی کو گولکنڈہ کی پہلی مثنوی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور کلاسیکی ادب میں بھی اس مثنوی کا شمار ہوتا ہے۔ یہ قلی قطب شاہ اور مشتری کے عشق کی داستان ہے جسے وجہی نے شاعری کے روپ میں پیش کیا ہے۔

مثنوی “قطب مشتری” کے علاوہ “سب رس” ملا وجہی کا ایک بہترین نثری کارنامہ ہے۔ اس داستان کو اردو نثر کی تاریخ میں قابل رشک مقام حاصل ہے۔ یہ ایک تمثیلی داستان ہے جسے وجہی نے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر 1635ء میں لکھا تھا۔اس داستان میں شہزادہ دل اور شہزادی حسن کی داستان عشق بیان کی گئی ہے۔ یہ دونوں کتابیں اس وقت کی دکنی ادب کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ انہیں دو مشہور کتب کی بناء پر آج وجہی کی وفات کے چار سو سال بعد بھی ان کا نام زندہ جاوید ہے اور دکنی ادب و اردو ادب میں ہمیشہ ان کو یاد کیا جاتا رہے گا۔