احسان دانش | Ehsan Danish Biography in Urdu

0

تعارف

احسان دانش ایک دبستان علم و ادب کا نام ہے۔ وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔ اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو، عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیار ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پرتو دکھائی دیتی ہے۔

حالاتِ زندگی

نظم و نثر کا یہ نیر اعظم 1914ء میں اتر پردیش کے کاندھلہ، ضلع مظفر نگر کے ایک مفلوک الحال گھرانہ میں پیدا ہوا۔ آبائی وطن قصبہ باغپت، ضلع میرٹھ تھا۔ ادبی حلقوں میں احسان دانش کے نام سے بطور تخلص شہرت پذیر تھے لیکن اصل نام احسان الحق تھا۔ پدر محترم کا نام نامی قاضی دانش علی تھا جو کہ ایک درویش منش اور بلند کردار انسان تھے اور اسی مناسبت کی وجہ سے آپ احسان دانش کہلائے۔

والدہ ماجدہ پابند صوم و صلاۃ اور نہایت با غیرت اور خودار خاتون تھیں۔ ان کی پرورش و پرداخت نانا ابو علی شاہ کے یہاں ہوئی جو ایک غریب سپاہی تھے۔ جد امجد کے انتقال پر ملال کے بعد والد محترم اپنے ساتھ باغپت لے آئے۔ ابتدائی تعلیم سے آراستہ کرنے اور رسم بسملہ کے لیے انہوں نے حافظ محمد مصطفی کے سپرد کر دیا۔ طریقہ نماز روزہ سیکھنے کے بعد فارسی کی چند کتابیں بھی انہی سے پڑھیں اور پھر عصری علوم و فنون سے آگہی کے لیے تحصیلی اسکول میں داخل کرایا گیا۔

ان کی تعلیم کے سلسلہ میں ان کے والدین کے عزائم تو پہاڑوں سے بلند و بالا تھے مگر افلاس کے موسم پر ارادہ کی بنیاد بے اعتباری کی نذر ہو کر تہس نہس ہو گئی اور قسمت کی ستم ظریفی کی وجہ سے چار جماعت سے آگے نہ پڑھا سکے۔ بعد ازاں احسان دانش اپنے ایک عزیز منشی محمود علی کے پاس “پترولی” سیکھنے لگے اور کافی حد تک اس فن میں مہارت بھی حاصل کر لی لیکن گھر کی ضروریات کے تقاضوں نے دفتر چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور قاضی محمود ذکی کی صحبت میں شعر کہنے لگے۔

پندرہ سال کی عمر میں لاہور چلے گئے اور مزدوری، معماری، باغبانی، چوکیداری اور چپراسی جیسی ملازمتوں کے فرائض انجام دیے۔ فرصت کے اوقات میں غرق بحر مطالعہ رہتے اور غربت و مزدوری سے حاصل ہونے والے تجربات و تخیلات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ شعری ذوق و شوق جب حد جنوں سے تجاوز کرنے لگا تو تاجور نجیب آبادی سے اصلاح شعر و سخن شروع کر دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے “مکتبہ دانش” کے نام سے اپنا ایک ذاتی کتب خانہ قائم کر لیا۔

ادبی زندگی

احسان دانش کی انشا پردازی کے بعد بڑے دلکش نمونے ملتے ہیں۔ وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی انتخاب الفاظ میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ نثر میں ان کا زندہ جاوید کارنامہ ان کی خود نوشت سوانح عمری “جہان دانش” ہے۔ انہوں نے کچھ غزلیں بھی کہیں مگر ان میں کوئی خاص بات نہیں۔ صرف روایتی انداز ہے، اس لیے ان کی غزل اردو شاعری میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکی۔

نظم نگاری


احسان دانش کا سرمایہ شعری زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ ایک بہت بڑی خدمت سر انجام دی۔ انہوں نے قارئین و سامعین کو ایک مظلوم طبقہ کی حالت زار کا احساس دلایا اور طبقاتی بیداری پیدا کی لیکن بسیار زیور علم سے پیراستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا حل پیش کرنے میں خائب و خاسر رہتے۔ غربت و امارت کی کامیاب مصوری کے باوجود ان کی شاعری سطحی رہتی۔ گہرائی، پیچیدگی اور شدت جذبات جو اعلیٰ شاعری کی خصوصیات ہیں، ان کی نظموں میں نظر نہیں آتیں۔

اردو کے بلند پایہ شاعروں کے اثرات بھی ان کے یہاں ناپید ہیں۔ وہ کسی شاعر سے ذہنی مناسبت پیدا نہیں کر سکے۔ جا بجا وہ انقلاب کا ذکر کرتے ہیں مگر ان کے ذہن میں انقلاب کا کوئی واضح تصور موجود نہیں۔ انہوں نے رومانی نظمیں بھی کہیں جو جاذب نظر ہیں کیوں کہ وہ شعری آداب کا خیال رکھتے ہیں۔ صاف ستھری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ تشبیہ و استعارہ سے حسب ضرورت کام لیتے ہیں۔ “گرمی کی دوپہر، نو عروس بیوہ، مزدور کی لاش اور مزدور کا مہمان ان کی مشہور اور بہترین نظموں میں سے ہیں۔

اعزاز

احسان دانش کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو “ستارہ امتیاز” کے خطاب سے نوازا۔ اردو ادب کا یہ رشک قمر ہمیشہ ہمیش کے لیے 1982ء میں ماند پڑ گیا۔