Advertisement
Advertisement

میر حسن کا اصلی نام غلام حسن تھا- میر حسن کی پیدائش دہلی میں 1727ء میں ہوئی۔ یہ ایک بہترین مثنوی اور مرثیہ نگار تھے- بچپن سے ہی شاعری کے شوقین ہوگئے تھے- ان کی شاعری کا سلسلہ لکھنؤ سے شروع ہوا- یہاں میر ضیاء الدین کے شاگرد تھے- اور جب دہلی میں تھے تو خواجہ میر درد کو اپنا کلام سناتے تھے- خواجہ میر درد کے ساتھ اور ان کی دی ہوئی تعلیم کی ہی بدولت انہوں نے اپنی بہترین مثنوی “رموزالعار فین” لکھی- جو کافی مشہور بھی ہوئی-

Advertisement

لکھنؤ میں ہی 1786ء میں ان کا انتقال ہو گیا- ان کی زندگی تقریباً 58-59 سال تک کی ہی تھی- اپنی چھوٹی سی زندگی میں یہ اردو ادب کو بہت سی اچھی یادیں اور ادبی خد مات دے گئے-

میر حسن فطری طور پر خوش مزاج تھے- ان کی سب سے مشہور اور شاہکار مثنوی “سحرالبیان” ہے- انہوں نے بہت سی اصناف سخن، مثنوی، غزل، قصائد، مرثیہ، رباعی، قطعات وغیرہ لکھیں- اردو ادب میں ان کی غزلیں ایک اونچا مقام رکھتی ہیں- میر حسن نے گیارہ مثنویاں لکھیں- لیکن جو مقبولیت اور شہرت ان کو ان کی مثنوی “سحر البیان” (قصہ بے نظیر وبدر منیر) کو حاصل ہوئی وہ کسی اور مثنوی کو نہیں ہوئی- سحرالبیان نے میر حسن کو ایک مشہور مثنوی نگار کی حیثیت دلائی- 

Advertisement

میر حسن کی مثنوی “سحرالبیان” 200 سال پرانی مثنوی ہے- لیکن جو اہمیت اسے کل حاصل تھی وہی اہمیت اسے آج بھی حاصل ہے-

Advertisement

میر حسن نے اس مثنوی میں ایسے لفظ استعمال کیے ہیں جسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کی مثنوی آج کی بولی جانے والی زبان میں لکھی گئی ہے-

میر حسن نے اس میں جذبات نگاری کا بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے- بے نظیر کے غائب ہو جانے کا منظر اس طرح سے لکھا ہے کہ تصویر آنکھوں سے واضح ہونے لگتی ہے-

Advertisement
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی 
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب 
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب 
سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر 
گرا خاک پہ کہر کے ہائے پسر

اس شعر کو پڑھ کر جو درد ناک منظر ہے وہ تصویر آنکھوں سے دکھنے لگتی ہے- انہوں نے اتنی سادہ زبان کا استعمال کیا ہے جس سے جذبات اور بھی زیادہ واضح ہونے لگتے ہیں-

ان کی مثنوی میں تہذیب اور ثقافت کی عکاس دیکھنے کو ملتی ہے- جذبات نگاری کے علاوہ ان کی مثنوی میں منظر نگاری٬ باغ کی تیاری٬ غسل کا منظر، جلوس کی تیاری، شادی کا منظر٬ کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں- انہوں نے اپنے منظر نگاری میں خدا کی مخلوق کا ذکر ایسے دکھایا ہے کہ واقعی قابلہ تعریف ہے-

سحرالبیان اپنے وقت کی بہت ہی مشہور مثنوی رہی- اس کے علاوہ ان کی دوسری مشہور مثنوی “گلزار ارم” ہے- جس میں میر حسن نے فیض آباد کی تعریف بہترین انداز میں اور لکھنؤ کی ہجو کی ہے-

“تذکرہ شعرائے اردو” میں بھی میر حسن نے شاعروں کا حال حوالوں کے ساتھ لکھا ہے-

Advertisement

جس طرح میرحسن ایک مشہور اور بہترین شاعر تھے- اسی طرح ان کے بیٹے اور ان کے پوتے بھی بہت نامی شاعر ہوئے اور اسی طرح میر حسن کا نام روشن ہوتا رہا- اور آج بھی ان کا مقام ایک الگ ہی جگہ بنائے ہوئے ہے جو کوئی اور نہیں لےسکتا-

Advertisement

Advertisement