سردار جاوید خان جاوید

0

حالات زندگی

سردار جاوید خان جاوید مہنڈر کے ایک گاؤں او نٹرول کے ایک جانے پہچانے خاندان کے روشن چراغ ہیں۔ ان کی پیدائش 1980 میں ہوئی۔ ان کے دادا مرحوم سردار محمد شیر خان مہنڈر کے پہلے لاگریجویٹ تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن کے دوران ان کی پراسرار موت سے ان کا فیض کم نہیں ہوا بلکہ وہ علاقہ میں جدید علوم کی روشنی کے مینار ثابت ہوئے۔ان کے والد مرحوم سردار محمد عارث خان ایک جرات مندانہ آزاد مرد تھے۔ ان کا شمار علاقے کے رئیسوں اور مدبر و میں ہوتا تھا۔

سردار جاوید خان جاوید خود بھی پیشے سے وکیل ہیں اور پختہ ادبی شوق رکھتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ شعر سننے اور سمجھنے کا بھی ہنر بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول چھترال سے مکمل کی اور پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ادبی محفلوں میں بھی متصل رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا ادب کے تئیں شوق بڑھتا گیا۔

انہیں شاعری سے شغف بچپن ہی سے تھا مگر تعلیمی مصروفیات نے انہیں اجازت نہیں دی۔ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ سے ایم اے سیاسیات اور لا کی ڈگریاں حاصل کیں اور اپنے آبائی گاؤں کا رخ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 2007 میں میں منصف کورٹ مہنڈر میں وکالت کی۔ اسی دوران ان کے برادر اکبر کی منصف کوٹ مہندر میں بحیثیت منصف تقرری ہوئی جس کی وجہ سے انہیں وکالت چھوڑنی پڑی۔ غالباً تین سال تک انہوں نے گورنمنٹ گرلز ہائی سکینڈری اسکول مہنڈر اور گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول چھترال شعبہ سیاسیات میں بطور لیکچرار اپنے فرائض انجام دیئے اور پھر 2011 میں دوبارہ وکالت شروع کی۔

شاعرانہ عظمت

سردار جاوید خان جاوید نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 2013 میں کیا اور بہت کم عرصے میں ہی مقبول اور مشہور ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کے ادبی حلقوں میں ان کا نام بڑے ادب سے لیا جاتا ہے۔چونکہ سردار جاوید خان جاوید ایک اذیت پسند شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری بھی درد و الم سے بھرپور ہے؀

لکھے ہیں میرے مقدر میں درد و الم اور
سہنے ہیں ابھی مجھ کو تیرے ہجر کے غم اور

گویا مجھے درپیش قیامت کی گھڑی ہے
اب کے تو ستم گر کا انداز ستم اور

سردار جاوید خان جاوید کی شاعری میں غم دوراں، غم جاناں اور غم ہجراں جیسے مضامین کثرت سے پائے جاتے ہیں جو پڑھنے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ گویا ان کے دل کی بات کہہ دی ہو۔ ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بہت سادہ حروف میں بہت اونچی بات کہہ دیتے ہیں۔

اگر بحر کی بات کی جائے تو وہ چھوٹی بحر میں لکھنا پسند کرتے ہیں جو نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے مگر انہوں نے اس کے ساتھ انصاف کرکے اپنا لوہا منوایا ہے۔ سردار جاوید خان جاوید خالص غزل کے شاعر ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ غزل کے لئے اور غزل ان کے لئے بنی ہے۔ ان کے کلام میں مٹی کے ساتھ جڑے رہنے کا پیغام بھی ملتا ہے اور وہ ماضی کی ناکامیوں کا ماتم نہیں کرتے بلکہ ایک تابناک مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔

لوگ کانٹوں میں بھی پھولوں کی قبا چاہتے ہیں
ہم تو بس فرط محبت کا صلہ چاہتے ہیں

ہم نے کب تم سے چمکتا ہوا سورج مانگا
ہم وہ پاگل ہیں کہ مٹی کا دیا چاہتے ہیں

سردار جاوید خان جاوید کا مزاج بہت ٹھنڈا نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ظاہری سکوت و سکون کے برعکس ان کے اندر کا انسان بے چین اور بے قرار رہتا ہے۔ان کی شاعری پڑھ کر ہرگز یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے شاعری کے میدان میں حال ہی میں قدم رکھا ہے اور یہی ان کی شاعری کی خوبی ہے اور مقبولیت کا سبب بھی۔ بعض غزلیں اس تناظر میں بھی لکھی ہیں گویا محبوب کے سوا زندگی کے کچھ معنی نہیں؀

پھول پتے بہار کیا معنی
بن تمہار سنگسار کیا معنی

تو نہ آئے گا میری سمت کبھی
اب تیرا انتظار کیا معنی

میری آنکھوں میں میں ڈھوڈ سی رہتی ہے
اس کے رخ پر نکھار کیا معنی

اگرچہ سردار جاوید خان جاوید نے شاعری کا آغاز سن 2013 میں کیا مگر ان کا پہلا پہاڑی شعری مجموعہ(تریڑ) 2015 میں منظر عام پر آیا جس کو بہت پزیرائی ملی اور سامعین و قارئین میں بھی مقبول ہوا۔ پھر 2017 میں دوسرا شعری مجموعہ( مٹی ) شائع ہوا اور سامعین کو محظوظ کیا اور اب شعری مجموعہ (رخت سفر) زیر اشاعت ہے جو بہت جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔