پروین شاکر | Parveen Shakir Biography In Urdu

0

تعارف

اردو کے منفرد اور مختلف لب و لہجے کی شاعرہ پروین شاکر کی پیدائش ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ کو کراچی میں ہوئی۔  ان کے خاندان میں کئی نامور شعراء اور ادیب پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انھوں نے ہی پروین شاکر کی توجہ شاعری کی جانب مبذول کروائی۔ 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت سیکرٹری خدمات سر انجام دیں۔ جبکہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مکمل کیا گیا مقالہ، زندگی کے ساتھ نہ دینے کے سبب پیش کرنے سے قاصر رہیں۔

ادبی سفر

ابتداء میں بینا کے نام سے پہچانی جانے والی شاعرہ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ کم عمری میں ہی وہ شہرت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں شعر و شاعری کا آغاز کیا۔ پروین شاکر سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا تھا۔ انہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔

Quiz on Parveen Shakir

پروین شاکر | Parveen Shakir Biography In Urdu 1

شعری مجموعہ (خوشبو)

اُن کے پہلے مجموعے “خوشبو” میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے، جس کے دیباچے میں انہوں نے تحریر بھی کیا ’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔‘ اُن کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اور اُس کے دُکھ اور کرب کو نظموں میں ڈھالا۔

شاعری کا محور

پروین شاکر کی شاعری کا محور فقط ایک لفظ ہے ’’محبت‘‘، جو کائنات کے انگ انگ میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ محبت کے بغیر یہ پوری کائنات ہی ادھوری ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ اور یہی محبت پروین شاکر کی تخلیقات، خصوصاً شاعری کا وہ محور ہے جس کے گرد اس کی نسائیت، حساسیت، انسانیت، تنہائی، کرب و ملال، حسن و رعنائی، جذباتیت وغیرہ گھومتی نظرآتی ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی۔

مجموعے

18 سال کے عرصہ میں ان کے چار مجموعے خوشبو، صدبرگ، خودکلامی اور انکار شائع ہوئے۔

اعزازات

ان کی شاعری کی سرپرستی احمد ندیم قاسمی صاحب نے کی، ان کی بیشتر شاعری قاسمی صاحب کے رسالے میں ہی شائع ہوتی رہی ہے۔ ان کی کلیات ماہِ تمام 1994 ء میں منظر عام پر آئی۔ 1985 میں انھیں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور ملک کے وقیع ایوارڈ “پرائڈ آف پرفارمنس” سے بھی نوازا گیا۔ وہ اردو ادب میں بہت عظیم شاعرہ تھیں ان کے موضوع زیادہ تر عورت اور محبت کے ہی اسیر رہے۔

مشہور تصانیف

  • ان کی مشہور تصانیف میں
  • انکار،
  • خودکلامی،
  • خوشبو،
  • ماہِ تمام،
  • صدبرگ مشہور نام ہیں۔

آخری ایام

26 دسمبر 1994ء کو ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ گاڑی کے حادثے کی وجہ سے ان کو ہسپتال لے جایا گیا مگر رخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ راہِ ملک عدم گئیں، پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں سپردخاک کر دیا اور اردو کی ممتاز شاعرہ من و مٹی تلے جا سوئیں۔

منتخب کلام

پروین شاکر کی بہت مشہور و مقبول غزل جو آج بھی نوجوان ان کی آواز میں سنتے ہیں۔

پروین شاکر کی نظم جو بہت پسند کی گئی۔

اس عمر کے بعد اس کو دیکھا!
آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
آواز میں گونجتی جدائی
بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
تا دیر میں سوچتی رہی تھی
کس ابر گریز پا کی خاطر
میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو
لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!
(پروین شاکر)