غلام ربانی تاباں | Ghulam Rabbani Taban Biography

0

تعارف

اردو ادب میں شعر و سخن میں منفرد لب و لہجہ کے مالک غلام ربانی تاباں کا ساری عمر کا کام سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا نام غلام ربانی اور تخلص تاباں تھا۔ غلام ربانی ۱۵ فروری ۱۹۱۴ کو فرح آباد ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

غلام ربانی تاباں نسلاً افغانی ہیں۔ ان کا خاندانی تعلق افغان کے آفریدی قبیلہ سے ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم کے لئے انھیں کم عمری میں ہی پتورا کے مدرسے میں شریک کردیا گیا۔ انھوں نے چوتھی جماعت تک اس مدرسے میں تعلیم پائی۔پھر قائم گنج کے جارج اسکول میں ساتویں جماعت تک پڑھا۔ کرچین ہائی اسکول فرخ آباد سے میڑک کے امتحان میں ناکام رہے۔ اسکول منتقل ہوئے اور میٹرک کیا۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں انٹر میڈیٹ  کیا۔

ادبی تعارف

تاباں صاحب  کا شمار عہد کے ممتاز شعراء میں کیا جاتا ہے۔ تاباں اپنی شاعری کا آغاز روایت سے کرتے ہیں یعنی ساتھ ان کے رونق بزم شبستانی گئی اور گل افشانی گئی، نغمہ سامانی گئی غزل خوانی گئی وغیرہ وغیرہ لیکن اگر وہ اپنی شاعری کو اس حسین روایت تک محدود رکھتے تو دیوان تو جب بھی ان کا چھپتا اور شاید مقبول بھی ہوتا کیوں کہ جوان محبت کا جذبہ پڑول کی طرح رقیق ہوتا ہے۔ذرا سی چنگاری رکھانے پر بھڑک اٹھتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایسی چنگاریاں بہت ہیں اور جذبات محبت بھی کہیں کہیں بھک سے اڑتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

تاباں نے بہت جلدی اور بڑی ہوشیاری سے اس پرانی روایتی شاعری سے نجات پائی۔ گو انھیں ایسا کرنے کے لئے بہت سی دشوار گذار منزلوں میں سے گزرنا پڑا ہے۔ ان کی شاعری میں انھوں نے محبت کی محرومی اور ایک فرد کے غم کو بڑی اہمیت دی ہے یہ غم بھی اہم ہے اور اس کی مریضانہ کشش سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔یعنی وہ اپنے غم میں وہ لذت محسوس کرتے ہیں جیسے اسے ہلکا ہلکا بخار چڑھ رہا ہو۔ یہ مٹھاس یہ درد یہ کسک اسی انفرادی غم کا خاصہ جہاں انسان کو فرد سماج سے زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کے کنویں ہی کو سمندر سمجھتے ہیں۔
مگر تاباں بہت عرصہ تک اس دھوکہ میں  نہیں رہے انھوں نے فرد کو سماج کے ساتھ جڑتے دیکھا تو سماجی شعور کا راستہ واضع نظر آیا۔ معلوم ہوا جو سماج کا غم ہے وہی چھوٹے پیمانے پر فرد کا غم ہے اور جب تک سماج کا غم دور نہیں ہوتا فرد مسرت کے ساحل کو نہیں چھو سکتا۔ پہلے درد کی شاعری میں یہ احساس کمزور تھا۔

اعزازات

ان کو حکومتی اور ادبی حلقوں سے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ، یوپی اردو اکادمی ایوارڈ اور کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ کے علاوہ  پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔  پدم شری کا اعزاز تاباں نے ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کردیا تھا۔

تصانیف

ان کی مشہور تصانیف میں

  • غبار منزل،
  • حدیث دل،
  • ہوا کے دوش پر،
  • جدوجہد آزادی،
  • نوائے آوارہ،
  • ساز لزاں،
  • شعریات سے سیاسیات تک،
  • تاباں،
  • ذوق سفر اور
  • انتخاب سراج اورنگ آباد قابلِ ذکر ہیں۔

آخری ایام

۷ فروری ۱۹۹۳ کو تاباں اس فانی دنیا کو خیر آباد کہہ کر راہی ملک عدم ہو گئے۔ انھوں نے ۷۹ برس کی عمر پائی جس میں اردو ادب کے لئے بےلوث اور انتھک محنت کی۔

غلام ربانی تاباں کی مشہور غزل کا انتخاب درج ذیل ہے۔