جمیل مظہری | Jameel Mazhari Biography In Urdu

0

تعارف

شعراء اکرام کی فہرست میں بہت سے لوگ انقلابی ،ثقافتی اور دیگر اصناف میں لکھنے والے آئے اور گئے مگر چند نام ایسے ہیں جو ہمیشہ  زندہ رہیں گے۔ جب بھی مثنوی میں جدت کی بات ہوگی جمیل مظہری کا نام یاد آئے گا۔ علامہ جمیل مظہری جن کا اصل نام سید کاظم علی تھا یکم جنوری سن 1905 کو پٹنہ کے محلہ مغل پورہ میں مولوی خورشید کے گھر  پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے تعلیم پٹنہ کے علاوہ کلکتہ میں حاصل کی اور تلاشِ معاش میں کلکتہ کی خاک چھانی پھر پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔

شاعری

جمیل مظہری بنیادی طور پر نظموں کے شاعر ہیں لیکن وہاں بھی غزل نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ اسی لئے ان کی غزلوں میں بھی تشکیک کا غبار نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کافی تعداد میں مرثیے بھی لکھے۔

نظمیں

ان کے یہاں رومانیت کے موضوع پر جو نظمیں ملتی ہیں ان میں انفردایت کی چھاپ گہری ہے۔ یہاں بھی ان کی آواز سب سے الگ اور ان کا انداز دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ ان نظموں میں عورت کے حسن کا جو تقدس اور گھریلو پن نظر آتا ہے وہ اردو شاعری میں ایک نئے عنوان کا اضافہ ہے۔ “اعتراف ، یہ کیا ہوا تم کو، ڈرو خدا سے ڈرو اور کہنے میں اس کو کیا محبت” جیسی نظمیں اردو کی رومانوی شاعری میں زندگی کی روشن دلیلیں ہیں۔

مرثیہ نگاری

ان کی مرثیہ نگاری منفرد گردانی جاتی ہے۔ بیسوی صدی میں فکری اعتبار سے جدید مرثیے کی سب سے بڑی اور سب سے سنجیدہ آواز علامہ جمیل مظہری کی آواز ہے۔ جمیل مظہری کی مرثیہ نگاری کا آغاز 1930ء میں ہوا۔ ’’عرفانِ عشق‘‘ جمیل مظہری کا پہلا مرثیہ تھا جو انہوں نے 26 سال کی عمر میں کہا۔

نقاد کی رائے

پروفیسر علی احمد فاطمی :
اِن سب کی پشت پر اقبال تھے جو اپنی سنجیدہ فکری اور فلسفیانہ شاعری کے ذریعے حقیقت اور معروضیت اور کہیں کہیں اشتراکیت اور انقلابیت کا ایسا صور پھونک رہے تھے کہ اُس کی گھن گرج سے نکل پانا ناممکن نہ سہی تو مشکل ضرور تھا۔“

تصانیف

ان کی مشہور تصانیف میں

  • عکس جمیل
  • فکر جمیل
  • عرفان جمیل
  • رنگ رخ
  • نقش جمیل اور
  • مثنوی آب و سراب شامل ہیں۔

جمیل مظہری کی ایک غزل مندرجہ ذیل ہے

  • مری بندگی تجھے دے سکے گی بجائے معنی و لفظ کیا
  • ہے مرے شعور کی جھولیوں میں سوائے معنی و لفظ کیا
  • جو نظر کا بوجھ نہ سہہ سکیں وہ زباں کا بوجھ سہیں گی کیا
  • سبک و لطیف اشارتوں پہ جفائے معنی و لفظ کیا
  • مجھے ڈر ہے اے سخن آفریں یہ لباس ان پر گراں نہ ہو
  • جو حقیقتیں نہ پہن سکیں وہ قبائے معنی و لفظ کیا
  • نہ وہ شمس میں نہ قمر میں ہے وہ حجاب فکر و نظر میں ہے
  • جو حجاب فکر و نظر اٹھا تو غذائے معنی و لفظ کیا
  • مری روح اگرچہ ہے گرسنہ مرا شوق اگرچہ ہے جاں بلب
  • مگر اے جمیلؔ غزل سرا یہ ردائے معنی و لفظ کیا

جمیل مظہری کی مشہور و مقبول نظم “شاعر کی تمنا” درج ذیل ہے۔

اگر اس گلشن ہستی میں ہونا ہی مقدر تھا
تو میں غنچوں کی مٹھی میں دل بلبل ہوا ہوتا
گناہوں میں ضرر ہوتا، دعاؤں میں اثر ہوتا
محبت کی نظر ہوتا، حسینوں کی ادا ہوتا
فروغ چہرۂ محنت، غبار دامن دولت
نم پیشانیٔ غیرت، خم زلف رسا ہوتا
ہوا ہوتا کسی دستار کج پر پھول کی طرح
اور اس دستار کج کی تمکنت پر ہنس رہا ہوتا
کسی مغرور کی گردن پہ ہوتا بوجھ احساں کا
کسی ظالم کے دل میں درد ہو کر لا دوا ہوتا
کسی منعم کے چہرہ پر خوشی حاجت روائی کی
کسی نادار کی نظروں میں شرم التجا ہوتا
کسی بھٹکے ہوئے راہی کو دیتا دعوت منزل
بیاباں کی اندھیری شب میں جوگی کا دیا ہوتا
کسی کے کلبۂ احزاں میں شمع مضمحل بن کر
کسی بیمار مفلس کے سرہانے رو رہا ہوتا
شرر بن کر کسی نادار گھر کے سرد چولھے میں
”بصد امید فردا” زیر خاکستر دبا ہوتا
یتیم بے نوا کی رہگزر پر اشرفی بن کر
لئیم فاقہ کش کی جیب ممسک سے گرا ہوتا
نیستاں سے نکل کر حسرت آباد تمدن میں
گدائے پیر و نا بینا کے ہاتھوں کا عصا ہوتا
شکستہ جھونپڑے میں بانسریٔ دہقاں کی سر بن کر
سکوت نیم شب میں راز ہستی کہہ رہا ہوتا
غرض اس حسرت و اندوہ و یاس و غم کی بستی میں
کہیں دور آفریں ہوتا، کہیں درد آشنا ہوتا
”ڈبویا مجھ کو ہونے نے” بقول غالب دانا
”نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا”

Quiz on Jameel Mazhari

جمیل مظہری | Jameel Mazhari Biography In Urdu 1