میر انیس | Meer Anees Biography In Urdu

0

میر ببر علی نام اور انیس تخلص تھا۔1802ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے۔انیس کے آباواجداد دہلی کے رہنے والے تھے۔ان کے پردادہ میرغلام حسین ضاحک دہلی کی تباہی کے بعد اپنے بیٹے میر حسن کے ساتھ دہلی چھوڑکر فیض آباد چلے آئے۔میر انیس کے والد کا نام میرخلیق تھا جو اردو کے مشہور مرثیہ گو شاعر تھے۔اس طرح انیس کو شاعری اور زبان دانی ورثہ میں ملی تھی۔

اردو کے عظیم شاعروں میں انیس کا شمار ہوتا ہے۔انیس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے صنفِ مرثیہ کو بام عروج پر پہنچا دیا اور اسے ایسا فروغ دیا کہ مرثیے میں مزید ترقی کے امکانات ہی ختم ہوگئے۔مرثیہ نگار انیس کے بعد بھی پیدا ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس صنفِ سخن میں اضافہ نہ کرسکا۔انیس کو اردو کا ہومر کہا جاتا ہے۔

شاعری اور زبان دانی انیس نے ورثہ میں پائی تھی اس لیے بچپن ہی یعنی 13 سال کی عمر میں شعر کہنے لگے۔انھوں نے غزل گوئی سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔جب والد نے سمجھایا کہ عاقبت کی فکر بھی لازم ہے تو اسلام اور مرثیہ کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس صنف کو آسمان پر پہنچا دیا۔ انیس پہلے حزیں تخلص کرتے تھے۔ ناسخ کے کہنے پر 1816ء میں انیس تخلص اختیار کیا۔ ہوا یوں کہ 1816ء میں اپنے والد خلیق اور ناسخ کے سامنے انیس نے جب یہ مطلع پڑھا”کھلا باعث یہ اس بے درد کے آنسو نکلنے کا” تو ناسخ نے بہت تعریف کی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کا تخلص حزیں کے بجائے کچھ اور ہو تو بہتر ہے۔ اس پر خلیق نے کہا کہ آپ ہی ان کے لئے کوئی تخلص تجویز فرمائے۔ تو ناسخ نے کہا کہ مجھے انیس پیارا لگتا ہے۔قبضہ میر ببر علی نے خزیں کے بجائے انیس تخلص اپنا لیا۔

انیس کو مختلف علوم پر قدرت تھی،گھوڑ سواری اور سپہ گری سے بھی واقفیت رکھتے تھے اس لئے مرثیہ گوئی میں بھی بے مثال کامیابی حاصل ہوئی۔ان کے بہت سے مرثیے زمانے کے ہاتھوں تلف ہوگئے اور بہت سے ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انیس کے مرثیوں کی ہیت مسدس ہے۔

انیس انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور خوب جانتے تھے کےکس صورتحال میں کیا واقعہ پیش آسکتا ہے یا کس موقع پر کونسا کردار کیا قدم اٹھائے گا یا اس کی زبان سے کیا کلمات ادا ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ انیس نے کردار نگاری میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا۔اس صنف میں کردارنگاری بہت مشکل تھی کیونکہ کرداروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے پھر یہ کردار مختلف قسم کے ہیں۔ ایک طرف نیک اور دیندار لوگ ہیں تو دوسری طرف برے اور بے دین۔کربلائی کرداروں میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی، بوڑھے، بچے اور نوجوان بھی،مختلف لوگوں کے مختلف مزاج ہیں مگر انیس نے تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

پلاٹ کی ترتیب میں بھی انیس نے بے مثال فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔واقعہ کربلا کے سلسلے میں جتنے واقعات پیش آئے و ہ تاریخ کی کتابوں میں موجود نہیں صرف اشارے ملتے ہیں۔یہ فنکار کا کمال ہے کہ اس نے گم شدہ کڑیوں کو اپنے تخیل کے ذریعے فراہم کردیا اور مربوط پلاٹ پیش کردئیے۔جناب حر کا مرثیہ” بخدا فارس میدان تہور تھا حر” اس کی بہترین مثال ہے۔

انیس نے ایک مرثیے میں دعا کی تھی کہ “اے خدا مجھے ایسی مہارت عطا فرما کہ خون برستا نظر آئے جو دکھاؤں صف جنگ” دعا مقبول ہوئی اور انیس نے جو واقعہ بیان کیا اس کی تصویر کھینچ دی۔میدان جنگ کی تصویر اس خوبی سے کھینچی کہ ایک خونی ڈراما پیش نظر ہوگیا۔انیس نے اپنے مرثیوں میں مختلف مناظر پیش کئے ہیں ہر جگہ مرقع کشی کا حق ادا کیا ہے۔

انیس کے مرثیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں اخلاقی تعلیم بھی ملتی ہے۔ان کے مرثیے نیکی، بلندکرداری، ایثار اور حق گوئی کی تعلیم دیتے ہیں۔اور یہ سبق دیتے ہیں کہ انسان کو باطل کے مقابلے میں حق کا ساتھ دینا چاہیے۔اور اس سلسلے میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے انہیں پامردی کے ساتھ برداشت کرنا چاہئے۔

شاعری کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہترین الفاظ بہترین ترتیب کے ساتھ یکجا کر دیے جائیں تو شعر وجود میں آتا ہے۔ انیس کے مرثیے اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔وہ اس راز سے بخوبی واقف تھے کہ کون سا لفظ کہاں مناسب رہے گا۔گویا فصاحت انکی زبان کا وصف خاص ہے۔

انیس کے مرثیوں نے اردو زبان کا دامن وسیع کردیا۔اردو شاعری میں ابھی تک کسی نے اتنے الفاظ و محاورات استعمال نہیں کیے جتنے انیس نے کیے ہیں۔انیس نے مرثیہ میں رزمیہ کی شان پیدا کی اور اس صنف کو ایسے مقام پر پہنچا دیا گیا کہ ابھی تک اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکا۔

میر انیس کے مرثیوں کی کل پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ان کے کچھ مشہور مرثیوں کے ایک مصرعے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔

  • *یا رب چمن نظم کو گلزارِ ارم کر ۔
  • *فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے۔
  • *بخدا فارس میدان تہور تھا حر۔
  • *پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح۔
  • *آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی۔
  • *جب بادبان کشتی شاہ امم گرا۔
  • *جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے۔
  • *نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری۔