Advertisement
Advertisement

تعارف

سید محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس تھا اور محسن ان کا تخلص تھا۔ سید غلام عباس ۵ مئی ۱۹۴۷ کو سادات کے محلہ ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ملتان سے گریجوشن اور جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہوگئے اور ادب کی خدمت میں پیش پیش رہنے لگے۔

Advertisement

ادبی زندگی

شاعری دراصل لطیف قلبی کیفیات سچے جزبات اور حسین احساسات کا اظہار ہے۔ ایک شاعر جہاں اپنی اندرونی حقیقت اور اپنے باطنی اضطراب کا ترجمان ہوتا ہے وہاں وہ معاشروں اور رویوں کی عکاسی بھی اپنے کلام کے ذریعے کرتا ہے۔ گویا ایک سچے اور پختہ شاعر کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے اور وہ حقیقت میں انسانوں کا ایک فکری طبیب کہلاتا ہے۔ محسن نقوی کی اہلِ بیت کے ساتھ عقیدت اور محبت ان کے نوحہ سلام و کلام سے ہمیں نظر آتی رہتی ہے۔

سب سے اونچا ہے جو کٹ کر وہ سر کس کا ہے؟
لٹ کر آباد ہے جو اب تک وہ گھر کس کا ہے
ظلم شبیر کی ہیبت سے نہ لرزے کیونکر
کس نبی کا نواسہ ہے پسر کس کا ہے؟

محسن نقوی ایک ایسی شخصیت اور شاعر ہیں جنہیں نقادوں اور ادب کے اجارہ داروں نے ہمیشہ زیادتی کا شکار بناتے ہوئے وہ مقام عطا نہ کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ محسن نقوی نے اپنی شاعری میں روایتی محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاوہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔ ایک شاعر اس وقت پختگی یا بلوغت کی سطح پر پہنچتا ہے جب وہ اپنی ذات کے غم اور حادثات سے باہر نکل کر معاشرے اور انسانیت کے بارے میں روانی سے تحریر کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ محسن نقوی کی شاعری میں پختگی اور ان کے اسلوب بیاں کا منفرد ہونا انہیں عہد حاضر کے شعراء سے یکسر مختلف بناتا ہے اور بے حد بلند مقام دیتا ہے۔

Advertisement
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

تصانیف

محسن نقوی کی چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں۔

Advertisement
  • برگ صحرا،
  • غیر مطلوبہ کلام،
  • بند قبا،
  • عذاب دید،
  • حق ایلیا،
  • خیمہ جاں،
  • ریزہ حرف،
  • روائے خواب
  • طلوع اشک

آخری ایام

محسن نقوی ایک بلند پایہ علم دوست، محبت جپنے والے اور لوگوں کی بھیڑ میں حسین علیہ السلام کا نام لینے والے شاعر کو ۱۵ جنوری کے دن ۱۹۹۶ میں دن دہاڑے، لاہور میں گولی مار کر جاں بحق کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ۴۵ گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں۔ یوں عالمی دبستان ادب کے افق پر چمکنے والا ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

منتخب کلام (غزل)

محسن نقوی کی غزل سے پانچ اشعار پیش ہیں۔

Advertisement

ایک نظم

مرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں مرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں کے پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
مرے لئے کون سوچتا ہے
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں
مری رگیں چھلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے
کسی کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں
مری مشقت کی شاخ عریاں پر
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں
مری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں
مرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کے دل میں کدورتیں ہیں
(محسن نقوی)

A Quiz On Muhsin Naqvi

محسن نقوی | Mohsin Naqvi Biography In Urdu 1

Advertisement